1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مقدونیہ سے انسانوں کے تیرہ مشتبہ اسمگلر گرفتار

12 جولائی 2017

مقدونیہ کی پولیس نے متعدد چھاپے مار کر انسانوں کی اسمگلنگ کے شبے میں 13 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ یونان میں موجود مہاجرین کو غیر قانونی طور پر سربیا اور دیگر مغربی ممالک منتقل کرنے کی کوشش میں تھے۔

https://p.dw.com/p/2gNSb
Idomeni Grenze Polizei Flüchtlinge
تصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے مقدونیہ کے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ گرفتار کیے گئے اسمگلر جن مہاجرین کو یونان سے سربیا لانے کی کوشش میں تھے، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان اور افغانستان سے تھا۔ بتایا گیا ہے کہ پولیس نے مقدونیہ کے دارالحکومت اسکوپیئے اور دو دیگر شہروں میں مختلف گھروں پر چھاپے مارے اور ایک بچے سمیت تیرہ افراد کو حراست میں لے لیا۔

کس یورپی ملک میں کتنے مہاجرین پہنچے، کتنوں کو پناہ ملی؟

کس یورپی ملک میں زیادہ پاکستانی مہاجرین کو پناہ ملی؟

یونان میں چند پیسوں کی خاطر جسم بیچتے پاکستانی مہاجر بچے

مقدونیہ کے پبلک سکیورٹی کے ڈائریکٹر لازو ویلکووزیکی کے مطابق ان تین شہروں میں یہ کارروائی دراصل بین الاقوامی اسمگلروں کے ایک نیٹ ورک کے خلاف کی گئی۔ یہ امر اہم ہے کہ مہاجرین کی اسمگلنگ کی روک تھام کی خاطر دیگر یورپی ممالک کی طرح مقدونیہ میں بھی سکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔

بتایا گیا ہے کہ اس تازہ ترین کارروائی میں گرفتار کیے جانے والے مشتبہ افراد جن مہاجرین کو اسمگل کرنے کی کوشش میں تھے، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان اور افغانستان سے تھا۔ پولیس کے مطابق دس دیگر مشتبہ افراد کی گرفتاری کی وارنٹ بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔

پولیس کے مطابق پیر کے دن سکیورٹی اہلکاروں نے ان مشتبہ افراد کی چھ گاڑیوں، ستائیس ہزار یورو کی نقد رقم، ایک ہینڈ بیگ اور موبائل فون بھی ضبط کر لیے۔ مقدونیہ اور بلقان کے متعدد ممالک نے گزشتہ برس اپنی بین الاقوامی سرحدوں کی نگرانی سخت کر دی تھی۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ مہاجرین اور تارکین وطن غیر قانونی طور پر مقدونیہ میں داخل نہ ہو سکیں۔

دوسری طرف برطانوی قانون سازوں نے کہا ہے کہ یورپی یونین کی بحیرہ روم میں فعال بحریہ انسانوں کی اسمگلنگ کو روکنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ صوفیہ نامی یہ فورس سن دو ہزار پندرہ میں بنائی گئی تھی، جس کا مقصد شمالی افریقہ سے بحیرہ روم کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والوں کو روکنا تھا۔

برطانوی قانون سازوں کی ایک پارلیمانی کمیٹی نے کہا ہے کہ اس فورس پر بہت زیادہ اخراجات آ رہے ہیں جبکہ یہ مؤثر طریقے سے کام کرنے سے بھی قاصر ہے۔ اس کمیٹی کے مطابق اس فورس کو اپنا طریقہ کار بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ حکمت عملی کے تحت یہ مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنے میں ناکام ہو چکی ہے۔