1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملائشیا میں سوشل میڈیا کا انقلاب

21 اگست 2010

جنوب مشرقی ایشیا کی ریاست ملائشیا کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو آزادی ء صحافت کے حوالے سے عالمی درجہ بندی میں کافی نیچے ہے لیکن اب وہاں سوشل میڈیا کے انقلاب کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/Ot5H
تصویر: picture alliance/dpa

ماضی میں کئی عشروں تک ہوتا یہ تھا کہ حکومت سے قربت رکھنے والے مرکزی ذرائع ابلاغ، جن میں اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا بھی شامل ہے، اختلاف رائے کا کھل کر اظہار نہیں کر پاتے تھے۔ ااس کے برعکس اب ہر اس رائے کا اظہار ممکن ہو چکا ہے اور ریاستی جبر اور کنٹرول کو یقینی بنانا بہت مشکل ہو گیا ہے ۔اس عمل میں آن لائن بلاگز اور موبائل ٹیلی فون کے ذریعے بھیجے جانے والے ایس ایم ایس پیغامات بھی واضح طور پر اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

دارالحکومت کوالا لمپور میں ایک بزرگ نامہ نگار کے مطابق، جو ایک کثیرالا اشاعت روزنامے کے لیے لکھتے ہیں، ان کے کیریئر کے زیادہ تر حصے میں اپوزیشن کی رائےکی رپورٹنگ کرنا تقریبا ناممکن تھا یا ایسے موضوعات کے بارے میں لکھنا جنھیں حکام ممنوعہ موضوعات تصورکرتے ہیں۔

NO FLASH Protest Reporter ohne Grenzen
صحافیوں کے حقوق کے لئے سرگرم تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے ایک مظاہرے کا منظرتصویر: picture-alliance/ dpa

لیکن آج حکومتی ارکان اس بات پر مجبور ہو چکے ہیں کی وہ اپنے مخالفین کے ساتھ بحث میں شامل ہوں۔ اس پیش رفت میں انٹرنیٹ کی سوشل میڈیا کہلانے والی ٹیوٹر اور فیس بک جیسی ویب سائٹس کا رول بھی فیصلہ کن رہا ہے۔

کوالالمپور کے اس سینئر نامہ نگار کے مطابق ،جس نے اس معاملے کی حساسیت کے پیش نظر اپنا نام ظاہر کرنے سے انکار کیا، اب ملائشیا کے صحافی نا صرف اپوزیشن کے مؤقف کی رپورٹنگ کرتے ہیں بلکہ ان کے لیے سرکاری سینسر شپ سے بچنا بھی قدرے آسان ہے۔

اس صحافی کے بقول ماضی میں ہر اس بیان پر یقین کرنا لازمی ہوتا تھا جو کوئی وزیر جاری کرتا تھا لیکن آج ایسے سیاستدانوں کے غیر مطمئن رفقاءکار اور سیاسی مخالفین نہ صرف فیس بک پر اہم معلومات مہیا کر دیتے ہیں بلکہ یوں صحافیوں کو ایسے ڈیٹا تک رسائی بھی حاصل ہو جاتی ہے جسے سینسر نہ کیا گیا ہو۔

ملائشیا میں اکثر صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان کے ملک میں میڈیا سے متعلق بیشتر ضابطے اور پابندیاں آج بھی اپنی جگہ پر موجود تو ہیں لیکن اب ابلاغ میں حزب اختلاف اور مختلف شعبوں میں شہری حقوق کی تنظیموں سے متعلق رپورٹنگ پر سینسر شپ انتہائی مشکل ہو چکی ہے۔

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم reporters without borders یا RSF کے مطابق بات اگر پریس فریڈم کی ہو تو اس حوالے سے عالمی درجہ بندی میں ملائیشیا کا نمبر کل 175ممالک میں سے131ویں نمبر پر آتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ملائشیا میں آج بھی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر کنٹرول بہت زیادہ ہے۔

Enemies of the Internet 2010 Flash-Galerie
دنیا بھر میں انٹرنٰٹ پر نگرانی رکھنے والے ممالکتصویر: RSF

صحافیوں کی اس عالمی تنظیم کے مطابق ملائشیا میں نامہ نگاروں کو ملک میں بدعنوانی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے حساس موضوعات پر کھل کر لکھنے کی اجازت نہیں ہے ۔ اور اس کے لیے میڈیا اداروں کو جاری کیے جانے والے پرمٹ کا نظام ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ کسی بھی میڈیا ادارے کو سزا دینے کے لیے یا اسے بند کرنے کے لیے اس کے پرمٹ کی منسوخی ایک عام سی بات ہے۔

ملائشیا میں آج سوشل میڈیا کی وجہ سے جو صحافتی انقلاب دیکھنے میں آ رہا ہے اس کی وجہ خود حکومت ہی کا 1996میں کیا جانے والا وہ وعدہ بنا جس کے تحت حکومت نے یقین دہای کرائی تھی کہ ملک میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کی ترقی کے لیے آن لائن معلومات کو کبھی سینسر نہیں کیا جائے گا۔ یہ وہ عوامل ہیں جنھوں نے ملائشیا میں روایتی میڈیا کے مقابلے میں آن لائن میڈیا کو کافی حد تک آزاد بنا دیا۔

رپورٹ : عصمت جبیں

ادارت : شادی خان سیف