1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملازمت کا دھوکا ’ بنگلہ دیشی خواتین کی شام اسمگلنگ‘

عدنان اسحاق1 مارچ 2016

بنگلہ دیشی خواتین کی ایک بڑی تعداد کو خلیجی ممالک میں بہتر ملازمت کا جھانسا دے کر شام اسمگل کیا جا رہا ہے۔ خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں ان خواتین سے گھروں میں کام لیا جاتا تھا اور انہیں جنسی غلام بھی بنایا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1I4bo
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages

بنگلہ دیش کے سریع الحرکت دستے ’آر اے بی‘ کے مطابق ان کے محکمے کو ایسی تقریباً 45 خواتین کے بارے میں علم ہوا ہے، جنہیں شام میں مارا پیٹا گیا، ان کا استحصال کیا گیا اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔ اس بیان میں بتایا گیا کہ یہ تمام واقعات گزشتہ برس رونما ہوئے۔ آر اے بی کے کمانڈر غلام سرور نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا،’’ اس بارے میں ہمیں شاہین نور نامی ایک خاتون سے پتا چلا۔ وہ شام میں اغوا کاروں کے چنگل سے آزاد ہونے میں کامیاب ہوئی تھی۔ اس نے اپنی والدہ کو فون پر اپنی کہانی سنائی اور یوں ہمیں اس بارے میں علم ہوا۔‘‘

کمانڈر غلام سرور نے مزید بتایا کہ شاہین نور کو لبنان میں ایک اچھی ملازمت دلوانے کا وعدہ کیا گیا۔ تاہم اس کے بدلے اسے اور پانچ دیگر خواتین کو دبئی لے جایا گیا اور پھر وہاں سے شام: ’’شام میں اسے مختلف افراد کو فروخت کیا گیا۔ اس دوران اس سے گھریلو کام لیے گئے اور جنسی ہوس کا بھی نشانہ بنایا گیا۔‘‘

Kinderprostitution in Bangladesch
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages

34 سالہ شاہین نور شدید بیمار ہیں اور انہیں شام سے بنگلہ دیش لایا جا چکا ہے۔ غلام سرور کے مطابق شاہین کو گردے میں تکلیف کی شکایت ہے اور ڈھاکہ میں ان کا علاج جاری ہے۔ مہاجرین کی عالمی تنظیم کے اندازوں کے مطابق آٹھ ملین بنگلہ دیشی شہری ملازمت کی غرض سے بیرون ملک مقیم ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک اور سنگاپور میں ہے۔ خلیجی ممالک میں زیادہ تر بنگلہ دیشی خواتین گھروں میں کام کرتی ہیں۔ اس دوران ان کا استحصال کیا جاتا ہے اور انہیں کسی قسم کی آزادی بھی نہیں ہوتی۔

غلام سرور کے مطابق شام انسانی اسمگلروں کا نیا اڈہ بن گیا ہے اور یہ جرائم پیشہ گروہ ملازمت مہیا کرنے والے بنگلہ دیشی اداروں کو بھی استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے بقول اس سلسلے میں بنگلہ دیش میں آٹھ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کیا یہ لوگ دانستہ طور پر انسانی اسمگلرز کے اس نیٹ ورک کا حصہ تھے؟ انہوں نے مزید بتایا کہ ان غریب خواتین سے تقریباً 380 ڈالر فیس لی جاتی ہے اور ان سے دو سو ڈالر ماہانہ کی نوکری کا وعدہ کیا جاتا ہے۔