1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملا منصور کی ہلاکت اور پاکستان: ’چپ کا روزہ ٹوٹ گیا‘

عبدالستار، اسلام آباد22 مئی 2016

طالبان رہنما ملا اختر منصور کی ہلاکت پر اسلام آباد حکام نے چپ کا روزہ رکھا ہوا تھا، جسے آج شب پاکستانی وقت کے مطابق ساڑھے آٹھ بجے کے قریب توڑ دیا گیا۔

https://p.dw.com/p/1IscP
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Salam Khan

پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں تصدیق کی ہے کہ وزیرِ اعظم نواز شریف اور آرمی چیف راحیل شریف کو ملا اختر منصور پر ہونے والے ڈرون حملے کے حوالے سے آگاہ کیا گیا تھا۔ ہفتے کو امریکا نے پاکستان کو یہ اطلاع دی کہ پاک افغان سرحد کے قریبی علاقے میں ایک ڈرون کا حملہ کیا گیا ہے، جس میں ذرائع ابلاغ کے مطابق ملا اختر منصور کو نشانہ بنایا گیا۔ وزیرِ اعظم نواز شریف اور آرمی چیف کو یہ اطلاع حملے کے بعد دی گئی۔ ابھی تک جو اطلاعات جمع کی گئی ہیں۔

ان کے مطابق ولی محمد ولد شاہ محمد، جو ایک پاکستانی شہری ہے اوراس کے پاس پاکستان کا آئی ڈی کارڈ بھی ہے۔ وہ قلعہ عبداللہ کا رہائشی ہے اور وہ اکیس مئی کو تافتان کی سرحد سے پاکستان میں داخل ہوا تھا۔ اس کے پاسپورٹ پر ایرانی ویزہ بھی تھا۔ وہ جس گاڑی میں سفر کر رہا تھا وہ تافتان کی ایک ٹرانسپورٹ کمپنی سے کرائے پر حاصل کی گئی تھی۔ یہ گاڑی کو چاکی کے علاقے میں تباہ شدہ حالت میں پائی گئی، جو پاک افغان سرحد پر واقع ہے۔ ڈرائیور کا نام محمد اعظم تھا، جس کی لاش کی شناخت بھی ہوگئی اورُ اسے اُس کے رشتے داروں نے وصول بھی کر لیا ہے۔ دوسری لاش کی شناخت شواہد اور وقوع کی جگہ سے ملنے والے دوسری اطلاعات کے ذریعے کی جارہی ہے۔

Afghanistan Taliban-Führer Akhtar Mohammed Mansur durch Drohne getötet
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Salam Khan

اس سلسلے میں تفتیش چل رہی ہے لیکن پاکستان اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری کے خلاف ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو ماضی میں امریکا کے ساتھ اٹھایا بھی گیا ہے۔ یہاں اس بات کاذکر کرنا ضروری ہے کہ چار ملکی کوآرڈینیشن گروپ کے اجلاس میں، جو اٹھارہ مئی کو ہوا تھا، اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ افغانستان کے امن کے لیے مذاکرات ہی واحد راستہ ہے اور طالبان پر یہ زور دیا گیا تھا کہ وہ تشدد چھوڑ کر امن کا راستہ اپنائیں۔‘‘
پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں کئی تجزیہ نگار یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ اب پاکستان پر بین الاقوامی دباؤ بڑھے گا لیکن علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے پروفیسر امان میمن کا کہنا ہے کہ یہ حملہ پاکستان اور امریکا درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کو ظاہر کرتا ہے۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’کابل نے گزشتہ چار ملکی مصالحتی گروپ کے اجلاس میں کوئی اعلی ترین عہدے دار نہیں بھیجا، جس کی وجہ سے چین اور امریکا نے پاکستان پر دباؤ ڈالا ہوگا کہ وہ طالبان کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ ملا منصور کی ہلاکت اور انگور اڈہ چیک پوسٹ کی افغان حکام کو حوالگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان اب امریکا کے ساتھ زیادہ تعاون کر رہا ہے۔‘‘
پریسٹن یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈاکڑ بکر نجم الدین کا کہنا ہے کہ اس سے طالبان کمزرو نہیں ہوں گے۔’’میرے خیال ہے کہ طالبان اس کا بدلہ لیں گے۔ افغانستان میں امن کی کوششوں کا نقصان پہنچے گا اور وہاں پر تشدد میں اضافہ ہو گا۔‘‘