1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملک بدری کے  سخت مجوزہ قوانین پر جرمن پارلیمنٹ میں تنقید

صائمہ حیدر
24 مارچ 2017

جرمن حکومت تارکینِ وطن سے نمٹنے کے لیے سخت قوانین وضع کرنا چاہتی ہے لیکن نقادوں کا کہنا ہے کہ ملک بدری نہ صرف ظالمانہ فعل ہے بلکہ اس پر اچھی خاصی لاگت بھی آتی ہے۔ اس معاملے کو جرمن پارلیمنٹ میں آڑے ہاتھوں لیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2ZtqY
Griechenland Mazedonien Flüchtlinge bei Idomeni
 جرمن کابینہ میں حزب ِ اختلاف نے مجوزہ مسودہء قانون پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اِس کا مقصد صرف جرمنی سے ملک بدریوں کی تعداد بڑھانا ہےتصویر: Getty Images/M. Cardy

جمعرات کے روز جرمن وزیر ِ داخلہ تھوماس ڈی میزئیر پناہ گزینوں کے حوالے سے ایک مجوزہ مسودہ قانون پیش کرنے جرمن پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہوئے۔ قانون کے اس مجوزہ ڈرافٹ کی رو سے جرمنی آنے والے تارکینِ وطن کے لیے سخت قوانین کا اطلاق کیا جا سکے گا۔

ڈی میزئیر کا کہنا تھا کہ جرمن عوام صرف اسی صورت میں اپنی حکومت کی مہاجرین کے لیے پناہ کی فراخدلانہ پالیسی کی حمایت کرے گی اگر جرمن حکومت ملک بدری کے قوانین کا سختی سے نفاذ کرے اور تارکینِ وطن کی جانب سے لاحق ممکنہ خطروں سے جرمن سوسائٹی کا تحفظ کرے۔

 ڈی میزئیر نے مزید کہا، ’پناہ حاصل کرنا اور اپنے گھروں کو واپس لوٹنا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔‘‘ ڈی میزئیر نے بارڈرز پر مہاجرین  کی شناخت کے لیے اُن کے  موبائل فونوں کا ڈیٹا استعمال کرنے کی متنازعہ تجویز کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی ملک کی سرحد میں داخل ہوتے وقت کسٹم چیکینگ کی جاتی ہے۔

Flüchtlinge - München
مہاجرین کی وکالت کرنے والے گروپس نے بھی تھوماس ڈی میزئیر کی جانب سے پیش کردہ اس مجوزہ قانونی مسودے پر کڑی تنقید کی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

 جرمن کابینہ میں حزب ِ اختلاف نے تاہم  مجوزہ مسودہء قانون پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اِس کا مقصد صرف جرمنی سے ملک بدریوں کی تعداد بڑھانا ہے اور یہ نہ صرف جرمن قانون بلکہ پناہ گزینوں کے وقار کی بھی توہین کے مترداف ہے۔ پارلیمنٹ میں بائیں بازو کی جماعت یا ’ دی لنکے‘ کی پیٹرا پاؤ کا کہنا تھا، ’’ اس  مسودہ قانون کا مقصد ملک بدری کے حق میں ایک عمومی مزاج کو ہموار کرنا ہے اور ایسے لوگوں کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے جو تحفظ کی تلاش میں یہاں آئے ہیں۔‘‘ پیٹرا پاؤ نے یہ بھی کہا کہ ایک تہائی پناہ گزین اٹھارہ سال سے کم عمر کے ہیں۔ گرین پارٹی کی رکنِ پارلیمنٹ لوئیسے اَمٹسبرگ کا کہنا تھا کہ یہ مسودہ قانون عجلت میں لکھاگیا ہے اور مہاجرین کی طرف غیر منصفانہ ہے۔

دوسری جانب مہاجرین کی وکالت کرنے والے گروپس نے بھی تھوماس ڈی میزئیر کی جانب سے پیش کردہ اس مجوزہ قانونی مسودے پر کڑی تنقید کی ہے۔ جرمنی میں پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ’ پَرو ازِیل‘ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ قانونی مسودہ ایک مشین کے مانند ہے جس کے پہیوں تلے تحفظ کی تلاش میں آئے افراد کو کچل دیا جائے گا۔