1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ممتاز قادری کی سزائے موت کے خلاف اپیل مسترد

شکور رحیم، اسلام آباد14 دسمبر 2015

پاکستانی سپریم کورٹ نے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی سزائے موت کے عدالتی فیصلے کے خلاف نطرثانی کی اپیل مسترد کر دی ہے۔ اب صرف اور صرف صدر مملکت سے رحم کی اپیل کی جا سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HN1t
Pakistan Protest Fall Salman Taseer
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پیر کے روز ممتاز قادری کی نطرثانی اپیل کی سماعت کی۔ مجرم کے وکیل اور لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج میاں نذیر اختر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ممتاز قادری کی سزا کے معاملے پر لارجر بنچ تشکیل دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس اپنی سربراہی میں لارجر بینچ بنا کر توہین مذہب کے معاملے کی تشریح کریں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ممتاز قادری کے مقدمے میں توہین مذہب کی بات ثابت نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر توہین مذہب کا معاملہ ثابت ہوتا تو معاملے پر لارجر کی تشکیل کا سوال مناسب ہوتا۔ بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ توہین مذہب انسانوں کا بنایا ہوا قانون ہے جس میں بہتری کی گنجائش ہر وقت موجود رہتی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس قانون کے بارے میں بات کرنا کسی طور پر بھی توہین مذہب کے زمرے میں نہیں آتا۔

جسٹس کھوسہ نے مجرم کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ممتاز قادری نے اپنا جرم تسلیم کیا اور جائے واردات سے ہتھیار کے ساتھ گرفتار ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالت نے کوئی قانونی نقطہ نہیں چھوڑا اور اس بارے میں تفصیلی فیصلہ دیا۔ اخباری تراشوں سے توہین رسالت ثابت نہیں ہوتی اور عدالت نے فوجداری مقدمے میں شواہد کو دیکھ فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔

ممتاز قادری کے وکیل نے کہا کہ یہ کسی شخص کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے اور انہوں نے قانونی راستہ اختیار کیا ہے۔ اس پر جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اگر ہم اپنے حلف پر نہ چلیں تو آپ ہمیں ظالموں میں شمار کریں گے۔ مجرم کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے ممتاز قادری کی سزائے موت پر نظرثانی اپیل مسترد کر دی۔

پیر کو سماعت کے موقع پر ممتاز قادری کے والد اور بھائی بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ تاہم سماعت کے بعد وہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کیے بغیر چلے گئے۔

ممتاز قادری کی اپیل کی سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ کو جانیوالے تمام راستوں کی کڑی نگرانی کی گئی اور پولیس کی بھاری نفری عدالت کے باہر تعینات کی گئی تھی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اکتوبر میں ممتاز قادری کو سلمان تاثیر کے قتل کے جرم میں ٹرائل کورٹ سے ملنے والی دو مرتبہ سزائے موت کے فیصلے کے خلاف اپیل مسترد کر دی تھی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں مجرم کے خلاف انسداد دہشتگردی کی وہ دفعات بھی بحال کر دی تھیں جو اسلام آباد ہائی کورٹ نے مجرم کی اپیل پر ختم کر دی تھیں۔

پنجاب پولیس کی ایلیٹ فورس کے اہلکار ممتاز قادری نے چار جنوری دو ہزار گیارہ کو گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو مبینہ توہین مذہب کے الزام میں کلاشنکوف سے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے ایک وکیل ذوالفقار بھٹہ کے مطابق سپریم کورٹ سے نظر ثانی کی اپیل مسترد ہونے کے بعد اب ملزم صدر مملکت کو رحم کی اپیل کر سکتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "اب ممتاز قادری کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ صدر مملکت کو رحم کی اپیل کرے اور پھر دیکھتے ہیں کہ صدر اس بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں کیونکہ عدالت نے تو قانون اور شواہد کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کیا لیکن صدر کو اس معاملے میں شاید سیاسی پہلو کو بھی مد نظر رکھنا پڑے۔"

انہوں نے کہا کہ اب اصل میں حکومت کا امتحان شروع ہوگا کہ وہ کس حد تک مذہبی جماعتوں کا دباؤ برداشت کر کے عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرتی ہے۔