ممتاز قادری کی پھانسی، ’مظاہروں کی خبریں نہ چلانے کا حکم‘
29 فروری 2016ممتاز قادری کی پھانسی کے خلاف ملک کے تمام بڑے شہروں کراچی، لاہور، اسلام آباد کے علاوہ چھوٹے شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق زیادہ تر احتجاجی ریلیاں پرامن طریقے سے ختم ہو گئیں ہیں جبکہ کئی مقامات پر احتجاج کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ حکومت پاکستان نے کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ملک بھر میں سکیورٹی کے انتظامات سخت کر دیے ہیں۔
حکومت نے راوالپنڈی میں ممتاز قادری کے آبائی گھر کے علاقے کی بھی سکیورٹی سخت کر دی ہے، جہاں آج ممتاز قادری کے ہزاروں حامی اکٹھے ہوئے۔ ممتاز قادری پنجاب پولیس کے اہلکار تھے اور انہوں نے سابق گورنر پنجاب کو اس وقت اٹھائیس گولیاں مارتے ہوئے ہلاک کر دیا تھا، جب وہ اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں موجود تھے اور ممتاز قادری ان کی حفاظت پر معمور تھے۔
ممتاز قادری کے مطابق انہوں نے سلمان تاثیر کو اس وجہ سے قتل کیا کہ وہ توہین رسالت کے قانون میں اصلاحات چاہتے تھے۔ یہ قانون پاکستان میں انتہائی حساس نوعیت کا ہے اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر مظاہرین پھانسی کے بعد ممتاز قادری کو ایک ’ہیرو‘ قرار دے رہے تھے۔
آج کا سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ کراچی میں ہوا، جس میں تقریباﹰ سات ہزار افراد شریک تھے۔ اسی طرح لاہور میں احتجاج کرنے والے مظاہرین کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ساتھ ساتھ پشاور، ملتان اور ملک کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بھی احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا گیا۔
کوئٹہ میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں تقریباﹰ نو سو افراد شریک تھے۔ پاکستانی میڈیا کے دو سینئر اینکرز نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے انہیں پھانسی کی خبر اور احتجاجی مظاہروں کو زیادہ اہمیت نہ دینے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ پاکستان کے زیادہ تر میڈیا چینلز پاکستانی خاتون شرمین عبید کی آسکر جیتنے والی دستاویزی فلم کی خبر سے نیوز بلیٹن کا آغاز کر رہے ہیں۔
دریں اثناء ممتاز قادری کے گھر کی قریبی مسجد میں اعلان کیا گیا ہے کہ ان کی تدفین منگل کو کی جائے گی تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد اس میں شرکت کر سکیں۔ قادری کے بھائی ملک عابد کا گرتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’مجھے کوئی افسوس نہیں ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ جیل حکام کی طرف سے ان کے اہلخانہ کو اتوار کی شام جیل بلایا گیا تھا اور انہیں کہا گیا تھا کہ کہ قادری کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ جب وہ پہنچے تو انہیں پتہ چلا کہ حکام نے ان کے ساتھ جھوٹ بولا ہے اور قادری کو پھانسی دی جا رہی ہے۔
قادری کے والد بشیر اعوان کا اس موقع پر کہنا تھا، ’’مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہے اور وہ اپنے تمام پانچ بیٹے قربان کرنے پر تیار ہیں۔‘‘
مقتول سلمان تاثیر کے بیٹے شہریار کا ٹوئٹر پیغام میں کہنا تھا کہ قادری کی پھانسی پاکستان کے لیے تو فتح کا دن ہے لیکن ان کے خاندان کے لیے نہیں، ’’ہمارے خاندان کے لیے میرے بھائی کی محفوظ واپسی ہی اہم ہے۔‘‘ شہریار کے بھائی شہباز تاثیر کو سن دو ہزار گیارہ میں اغوا کر لیا گیا تھا۔