1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

منگیتر ہاتھوں میں ہاتھ مت ڈالیں: ترک علماء کا فتویٰ

عابد حسین4 جنوری 2016

ترک مذہبی علماء نے مردوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی منگیتر کا ہاتھ پکڑنے سے گریز کریں۔ علماء کا اصرار ہے کہ منگیتروں کی کھلے عام ملاقاتیں اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈالنا اسلامی اقدار کے منافی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HXge
تصویر: trigon-film

ترکی کی مذہبی امور کی ایجنسی نے آج پیر کے روز اعلان کیا ہے کہ منگنی شدہ جوڑے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے سے گریز کریں اور اِس کے ساتھ ساتھ وہ ایک دوسرے سے اظہار محبت یا فلرٹنگ کرنے سے بھی اجتناب کریں۔ ان علماء نے اپنے اِس اعلان میں مزید کہا کہ یہ عوامل اسلام کی اقدار کے مطابق جائز نہیں ہیں۔ ترکی میں اِس حکومتی مذہبی ایجنسی کا نام ’دیانت‘ ہے۔

اس ایجنسی نے یہ بیان منگیتروں کے درمیان میل ملاپ کے تناظر میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں جاری کیا ہے۔ ایجنسی کے مطابق بیان جاری کرنے کا مقصد عام لوگوں کی رہنمائی اور ’غیر اخلاقی‘ طرز اپنانے والوں کے لیے ہدایت ہے۔ ایجنسی نے ترکی میں شادی رچانے والے جوڑوں پر واضح کیا کہ آپس میں ملاقات کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اِس کے لیے پرائیویسی کا ہونا ضروری ہے یعنی کھلے عام یا کسی ریستوران میں ملاقات درست اور جائز نہیں قرار دی جا سکتی۔

Türkei Tayyip Erdogan
مصطفیٰ کمال اتاترک کے مزار پر حاضری دیتے ہوئے رجب طیب ایردوآنتصویر: Stringer/AFP/Getty Images

مذہبی امور کے ادارے ’دیانت‘ کی جانب سے جاری ہونے والی ہدایت میں کہا گیا کہ منگیتروں کی ملاقات کا پرائیویٹ ہونا اِس لیے بھی ضر وری ہے کہ یہ محدود رہتی ہے اور جب کھلے عام ہو گی تو دوسرے لوگ گپ بازی اور مزہ لینے کے حوالے سے معمولی بات کو بڑھا چڑھا کے پیش کرنے لگتے ہیں اور یہ عمل بھی اسلامی اخلاقیات کے مطابق نہیں ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ ترکی کی بیشتر آبادی رہن سہن اور لباسوں میں مغربی طرز زندگی کی نقل کرتی ہے۔

ترک مذہبی امور کا ادارہ ’دیانت‘ سن 1924 میں قائم کیا گیا تھا اور اِس کی ذمہ داریوں میں سیکولر ترکی میں مذہب کی جدید انداز میں ترویج تھی۔ اس ادارے کے مقاصد میں یہ ضرور شامل ہے کہ وہ عوام کو مذہبی اخلاقیات کے بارے میں آگاہ کرتی رہے۔ جدید سیکولر ترکی میں اِس ادارے کے بیانات اور احکامات نافذہ قوت سے محروم ہیں۔ دوسری جانب ترکی کے بعض علاقوں میں مذہبی اقدار پر سختی سے کاربند رہنے کا رحجان بھی موجود ہے۔ کئی ترک علاقوں میں شادی سے قبل پیدا کیے جانے والے جنسی تعلقات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ترک تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سابق وزیراعظم اور موجودہ صدر رجب طیب ایردوآن بتدریج ملک میں سخت اسلامی عقائد کو متعارف کروانے کی راہ ہموار کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ عوامل جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کے سیکولر ترکی کے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ موجود حکومت کا استدلال ہے کہ وہ زیادہ مذہبی آزادی کی حامی ہے اور سیکولر ترکی کے خدوخال کو تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔