1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

منیلا آسیان کانفرنس، نگاہیں ٹرمپ مودی ملاقات پر

جاوید اختر، نئی دہلی
12 نومبر 2017

منیلا میں آسیان سربراہ کانفرنس میں عالمی رہنما یوں تو دنیا اور بالخصوص جنوب مشرقی ایشیا کی صورت حال پر غور کریں گے تاہم امریکی صدر ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پیر کو ہونے والی ملاقات توجہ کا اصل مرکز ہے۔

https://p.dw.com/p/2nUE4
Philippinen indischer Ministerpräsident Narendra Modi
تصویر: PIB/Goverment of India

جنوب مشرقی ایشیا کے دس اہم ملکوں کا گروپ آسیان کی یہ  سربراہ کانفرنس ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب متنازعہ بحیرہ جنوبی چین کے حوالے سے بیجنگ حکومت نے جارحانہ موقف اختیار کیا ہوا ہے اور شمالی کوریا نے حالیہ مہینوں میں کئی میزائل تجربات کیے ہیں۔ اس اجلاس میں ان دونوں موضوعات پر شدید بحث کی امید ہے۔ تجارت اور سرمایہ کاری کے علاوہ بحری سلامتی، دہشت گردی، ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے اور مہاجرت جیسے امور بھی کانفرنس میں زیر بحث آئیں گے۔

تاہم سب سے زیادہ اہمیت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پیر کو ہونے والی ملاقات کو دی جا رہی ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان تقریباً ایک گھنٹے تک بات چیت ہو گی۔گزشتہ پانچ ماہ کے دوران ان دونوں کی یہ دوسری ملاقات ہے۔ ٹرمپ نے حال ہی میں بھارت کی شاندار ترقی کے لیے مودی اور ان کی حکومت کی تعریف کی تھی۔ بھارت سمجھتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جنوب ایشیا کے حوالے سے نئی پالیسی میں ایک طرف انڈو پیسیفک کی وکالت کی گئی ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان اور چین سے نمٹنے کی مودی حکومت کی خارجہ پالیسی کی تائید بھی کی گئی ہے۔ یہاں حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی اور صدر ٹرمپ خطے میں سلامتی کے منظر نامے سمیت مختلف امور پر بات کریں گے۔

ٹرمپ او رمودی کی اس ملاقات کو کئی لحاظ سے اہم قرار دیا جارہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکی صدر نے حال ہی میں چین کے دورے کے دوران چین کے بیلٹ اور روڈ منصوبے(بی آر آئی) میں تعاون فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جب کہ بھارت چین کے اس منصوبہ کو خطے کی ترقی میں شفافیت اور مساوات کے منافی قرار دیتا ہے۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ دونوں رہنماؤں کی میٹنگ سے قبل بھارت نے امریکا، جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل چہار فریقی اجلاس کی تجویز پیش کرکے ماحول کو گرم کردیا ہے۔ آسیان کانفرنس کے دوران ہی یہ چہار فریقی میٹنگ بھی ہو گی۔ چین نے گزشتہ ہفتے اس مجوزہ ملاقات پر سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ چینی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا تھا، ’’ہمیں امید ہے کہ یہ ملاقات کسی تیسرے فریق کے مفادات کو نشانہ بنائے یا نقصان پہنچائے بغیر علاقے میں امن، خیر سگالی اور خوشحالی کو تحفظ اور فروغ دی گی۔‘‘

Philippinen indischer Ministerpräsident Narendra Modi
تصویر: PIB/Goverment of India

مودی اور ٹرمپ کی ملاقات: توقعات کيا اور امکانات کيا؟

امريکا اور بھارت کی قربت، پاکستان کے ليے کيا معنی رکھتی ہے؟

’ٹرمپ گاؤں ميں خوش آمديد‘


بھارتی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ اس میٹنگ کا مقصد چاروں ملکوں کے رہنماؤں کے درمیان اتحاد کے احساس کو فروغ دینا ہے۔ یہ میٹنگ گوکہ چین کی جانب سے خطے میں کیے جانے والے حالیہ اقدامات کے پس منظر اور اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ اس موقع پر  چاروں رہنما ایک دوسرے سے مل کر اپنے اپنے خیالات پیش کر سکیں گے۔

مجوزہ چہار فریقی میٹنگ کے حوالے سے بھارتی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا، ’’بھارت، آسٹریلیا، جاپان اور امریکا کی وزارت خارجہ کے افسران کی ایک ملاقات منیلا میں ہوئی جس میں بھارت بحرالکاہل خطے یا (انڈو پیسیفک) میں مشترکہ مفادات کے حوالے سے مختلف امور پر صلاح و مشورہ کیا گیا۔ شرکاء ایک ایسے پر امن، مستحکم اور خوشحال بھارت بحرالکاہل پر متفق تھے جو خصوصی طور پرخطے کے تمام ملکوں اور عمومی طور پر دنیا کے طویل مدتی مفادات کو پورا کرتا ہو۔ شرکاء نے دہشت گردی اور ہتھیاروں کے پھیلاؤ جیسے مشترکہ چیلنجز پر بھی تبادلہ خیال کیا۔‘‘

آسیان کانفرنس کے دوران وزیر اعظم مودی اور ان کے چینی ہم منصب لی کی چیانگ کے درمیان ملاقات بھی متوقع ہے۔ وزیر اعظم مودی منیلا میں اپنے تین روزہ قیام کے دوران پندرہویں بھارت آسیان اور بارہویں مشرقی ایشیا کانفرنس کے علاوہ آسیان کے قیام کی پچاسویں سالگرہ کی تقریبات میں بھی شرکت کریں گے۔کسی بھارتی وزیر اعظم کا منیلا کا 36 برسوں کے وقفے کے بعد یہ پہلا دورہ ہے۔

USA Trump und Modi im Weißen Haus
تصویر: Reuters/K. Lamarque

آسیان اور بھارت کی مشترکہ آبادی 1.85بلین ہے جو دنیا کی مجموعی آبادی کا ایک چوتھائی ہے۔ دونوں کے درمیان2015\16 میں 65.04 بلین ڈالر کی تجارت ہوئی تھی، جو عالمی مارکیٹ کا 10.12 فیصد ہے۔ آسیان میں انڈونیشیا، ملائشیا، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ، برونائی، کمبوڈیا، لاؤس، میانمار اور ویت نام شامل ہیں۔