1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موبائل عدالتوں کے قیام کا صدارتی آرڈیننس

امتیاز گل ، اسلام آباد2 مارچ 2009

فوجداری مقدمات کی سرسری سماعت کے لئے موبائل عدالتوں کے قیام کا صدارتی آرڈیننس جاری کیاگیا ہے۔

https://p.dw.com/p/H4BT
پاکستانی صدر آصف علی زرداریتصویر: AP

اس آرڈیننس کے مطابق ان عدالتوں کو زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کی مدت میں سزا سنانے کا اختیارحاصل ہوگا جبکہ ان میں دوران سماعت شہادتوں یا وکیل کے پیش ہونے کی پابندی بھی نہیں ہو گی۔

ضلع کی سطح پرقائم ہونے والی ان عدالتوں کےلئے ہنگامی بنیادوں پرضلعی مجسٹریٹس بھرتی کئے جائیں گے جو اپنے علاقے میں گھوم پھر کر کسی بھی جگہ سزاسنانے کے مجاز ہوں گے۔ حکومتی حلقے صدر مملکت کے اقدام کو انصاف کی فوری فراہمی کی سمت میں مثبت پیش رفت قرار دے رہے ہیں اور ان کے مطابق اس نوعیت کی عدالتوں کے قیام سے عوام کو چھوٹے قانونی مسائل کا فوری اور آسان حل میسرہوگا۔ تاہم بعض آئینی ماہرین اورخصوصاً وکلاء رہنما اس آرڈیننس کو ملک میں جاری عوامی احتجاج اور وکلاء تحریک کو کچلنے کی حکومتی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے معروف وکیل اطہر من اللہ نے ڈوئچے ویلے کوبتایاکہ: ’’اس غیرقانونی اور غیر آئینی اقدام اٹھانے کا مقصد بظاہر یہ بدنیتی لگتی ہے کہ وکلاء کے لانگ مارچ اور دھرنے کوکسی طرح روکا اور ناکام بنایا جائے ۔ یہ موبائل عدالتیں نہیں ہیں انہیں صرف اورصرف مارشل لاء اور پرویز مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل کہہ سکتے ہیں ۔‘‘

دوسری طرف مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف نے موبائل عدالتوں کے قیام کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں بدنیتی پرمبنی اور غیر قانونی اقدام قرار دیا ہے۔ ’’موبائل عدالتوں کے قیام کا تعلق پاکستان میں غریب لوگوں انصاف دینے سے نہیں ہے۔ آج اسمبلی کا سیشن اس وقت چل رہا ہے اور اوپر سے آرڈیننس جاری ہو رہا ہے ۔ زرداری صاحب! کچھ توڈیموکریسی اور اپنے ملک پر رحم کرو ۔‘‘

مبصرین کے خیال میں عام لوگوں کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کےلئے موبائل عدالتوں کے قیام میں کوئی قباحت نہیں تاہم وکلاء کے دھرنے سے چند دن قبل اور میاں برادران کی نا اہلی کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے موقع پر صدارتی آرڈیننس کے اجراء نے اس اقدام کو خاصا متنازعہ بنا دیا ہے۔