1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موت : جرمن بچوں کے لیے بحث کا موضوع

12 جنوری 2011

موت و زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ليکن پھر بھی کم ہی لوگ اس پر صحيح معنوں ميں غوروفکر کرتے ہيں۔ جوان لوگوں اور بچوں کا تعلق ہے تو شايد اُن ميں سےاکثر کے ذہنوں ميں موت کے بارے ميں سوال ہوتا ہے کہ اس کے بعد آخر کيا ہوگا۔

https://p.dw.com/p/zwUw
تصویر: AP

موت ايک ايسا موضوع ہے جس پر بہت کم ہی لوگ بات کرنا چاہتے ہيں۔ جرمنی کے شہر کولون کے مضافات ميں واقع ايک پرائمری اسکول کے 15 طلبا کے لئے يہ موضوع اب کوئی اجنبی موضوع نہيں رہا۔ وہ اپنے اسکول کے ايک ايسے پروگرام ميں حصہ لے رہے ہيں جس ميں اسی موضوع پر مختلف طريقوں سے روشنی ڈالی جاتی ہے۔

ان طلبا کی عمريں نو سے دس سال کے درميان ہيں۔ انہيں ايک ہفتے تک موت کے حوالے سے اپنے جذبات کے اظہار کا موقع ديا گيا ہے۔ ہر دن کا موضوع موت ہی کے بارے ميں، ليکن کسی اور پہلوسے متعلق تھا۔ ہر روز کا پروگرام پچھلے دن ہی کے پروگرام کی بنياد پر آگے بڑھايا جاتا تھا۔ مثلاً ايک دن کا موضوع بيماری اور تکليف رکھا گيا تھا تو اگلے روز کا موضوع مرنا اور موت تھا اور اُس سے اگلے دن غم اور تسلی دينے پر بات کی گئی۔

Serbischer Artillerie-Angriff auf den Markale-Markt Sarajevo
ساراژیوو کی ایک سڑکر پر بکھرا انسانی خونتصویر: AP

شروع ميں بچوں کو يہ دعوت دی گئی کہ وہ حال ہی ميں ہونے والے اچھے اور برے تجربات کو سفيد اور سياہ بادلوں پر لکھيں۔ ايک لڑکے نے يہ لکھا:

’’ کالے بادل پر يہ کہ ميرے دادا کا انتقال ہو گيا اور سفيد بادل پر يہ لکھا ہے کہ ميرا اسکول ميں داخلہ ہوگيا ہے اور مجھے وہاں نئے دوست مل گئے ہيں۔ ‘‘

ايک لڑکی نے يہ لکھا:

’’سفيد بادل پر يہ کہ ہمارے اسکول ميں نئے بيت الخلاء بن گئے ہيں اور سياہ بادل پر يہ کہ ميری والدہ بيمار ہيں۔ ‘‘

ماہر نفسيات بٹينا ہاگےڈورن 13 برس سے بھی زيادہ عرصے سے اس شعبے سے منسلک ہيں اور وہ ڈيورن نامی شہر ميں اس سلسلے ميں مصروف عمل رہی ہيں۔ اسکولوں ميں اس موضوع پر طالبعلموں سے مذاکرے کرنے کی مہم انہوں ہی نے سن 2005 سے شروع کی تھی۔ اُن کا کہنا ہے کہ موت اور مرنے کے بارے ميں معلومات نہ ہونے يا ناقص معلومات کی وجہ سے مرنے والوں کے عزيزوں اور لواحقين کو غير معمولی اور ضرورت سے زيادہ تکليف اور غم کا سامنا کرنا پڑتا ہے ’’ جب موت کے مسئلے کا سامنا ہوتا ہے تو اکثر والدين کو يہ علم نہيں ہوتا کہ وہ اپنے بچوں کو اس بارے ميں کيا بتائيں۔ وہ ہميشہ اس سے خوفزدہ رہتے ہيں کہ وہ کہيں اپنے بچوں کو کوئی غلط بات نہ بتا ديں۔ ہم بچوں سے اُس خوف کے بارے ميں بات کرتے ہيں جو اُن کو موت سے ہے اور ہم اُنہيں موت اور مرنے سے متعلق بہت کچھ بتاتے ہيں تاکہ وہ يہ جان سکيں کہ موت ايک بالکل عام حقيقت ہے اور يہ کہ سب ہی کو مرنا ہے۔‘‘

Türkischer Journalist ermordet
ترک صحافی کی ہلاکت کے بعد اس کی تصویر کے گرد سوگواروں کی یاد کی روشنیاںتصویر: AP

سن 2008 ميں موت کے بارے ميں اسکول کے طلبا سے مذاکروں کا يہ پرو گرام بہت پسند کيا گيا اور ايک شہرت يافتہ جرمن شخص نے اسے ملک ميں ’’ صحت کا بہترين پروگرام ‘‘ قرار ديا۔ بٹينا ہاگے ڈورن کو اس تعريف پر بہت خوشی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اُنہيں اس کا ذاتی تجربہ ہے کہ بچوں کو کسی عزيز کی موت کے ڈر سے کيا محسوس ہوتا ہے جب يہ معلوم نہ ہو کہ موت کيا ہے اور مرنے کے دوران کيا ہوتا ہے’’ ميرا چھوٹا بھائی واقعی بہت بيمار ہوگيا تھا اور تين دنوں تک ميرے والدين کو يہ نہيں معلوم تھا کہ وہ بچ سکے گا يا نہيں۔ انہوں نے ميرے بڑے بھائی اور مجھے اس بارے ميں نہيں بتايا۔ ہميں ہسپتال سے باہر انتظار کرنا پڑا اور جب وہ باہر آئے تو ميرے والدين بہت اُداس تھے۔ ليکن اُنہوں نے ہميں يہ نہيں بتايا کہ ہمارے چھوٹے بھائی کی حالت کتنی نازک تھی۔ اُس وقت ميری عمر چھ سال کی تھی اور ميں بہت ہی خوفزدہ تھی۔‘‘

موت کے بارے ميں طلبا کو معلومات فراہم کرنے کے پروگرام کے دوران ايک دن کے ليے ايک ڈاکٹر کو بھی بلايا جاتا ہے جس سے طلبا تمام سوالات کر سکتے ہيں۔ مثلاً يہ کہ آپ کو يہ کس طرح پتہ چلتا ہے کہ کوئی مرچکا ہے۔ کينسر کتنا بڑا ہوسکتا ہے اور مرتے وقت دماغ ميں کيا کچھ ہورہا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بچے کسی کی موت پر غم منانے کے انداز بھی سيکھتے ہيں اور يہ بھی کہ مختلف مذاہب اور ثقافتوں ميں تدفين کی کيا رسومات ہوتی ہيں۔

Bombenanschlag in Karatschi Pakistan
کراچی میں خود کش حملے کے بعد ایک شخص کی میت اٹھائی جا رہی ہےتصویر: AP

ايک طالبعلم نے اس پروگرام ميں حصہ لينے کے بعد کہا ’’ ميں نے اس پروگرام سے يہ سيکھا ہے کہ مرنے کے بعد آدمی غمگين نہيں ہو سکتا اور يہ کہ مرنے سے پہلے بھی آدمی کو اُداس نہيں ہونا چاہيے۔‘‘

ايک اور بچے نے کہا ’’ اب مجھے موت سے کوئی خوف نہيں ہے۔‘‘

ايک اور طالبعلم نے يہ کہا ’’ دراصل رونے والا جراءت مند ہوتا ہے کيونکہ دوسرے اس کی ہمت ہی نہيں کرتےحالانکہ رونا اچھا ہوتا ہے کيونکہ اس طرح آپ اپنے غم کو جھٹک سکتے ہيں۔‘‘

ايک طالبعلم کے الفاظ تھے ’’ ميرے لئے يہ پروگرام بہت ہی اچھا تھا۔ اب مجھے موت کا کوئی ڈر نہيں ہے۔ مجھے مرنے سے خوف تو ہے کيونکہ مجھے نہيں معلوم کہ ميں کس طرح مروں گا ليکن اس کے علاوہ مجھے کوئی اور ڈر نہيں ہے۔‘‘

موت کے مذاکرے کا پروگرام اسکولوں کے نصاب ميں شامل نہيں ہے اور ہر اسکول کو اس کے لئے خود انتظامات کرنا پڑتے ہيں۔ بعض باپ چھٹی لے کر يہ ديکھنے آتے ہيں کہ اُن کے بچوں نے اس پروگرام ميں کيا سيکھا۔ ايک ايسے ہی باپ ہارٹس ہائم نے کہا ’’ ميں يہ کہوں گا کہ انہوں نے بچوں کے لئے يہ بہت ہی اچھا پروگرام کيا ۔ يہ بھی محسوس نہيں ہوتا کہ يہ بچوں پر ضرورت سے زيادہ بوجھ تھا۔عام طورپر والدين اس موضوع کو نظر انداز کرتے رہتے ہيں ليکن بچوں کے ساتھ والدين کو بھی اس سے شغف ہورہا ہے۔ پھر وہ لمحے بھی ياد آتے ہيں جب وہ خود بھی موت کے مسئلے سے دوچار ہوئے تھے اور شايد اس سے نمٹ نہيں سکے تھے۔ اس لئے جب بچے اتنی کم عمری ميں اس کا سامنا کررہے ہيں تو پھر شايد وہ ہماری عمر ميں ہم سے بہتر ہوں گے۔‘‘

ايک طالبعلم کی ماں نے کہا ’’ بچوں کے ذہنوں ميں موت کے بارے ميں بہت سے سوالات ہوتے ہيں ليکن وہ والدين سے پوچھنے کی ہمت نہيں کرتے اور والدين بھی اُنہيں بتانے کا حوصلہ نہيں رکھتے۔ اس ليے اس پروگرام ميں اُنہيں اس بارے ميں بتانا بہت اچھا ہے۔ اس پروگرام ميں حصہ لينے والا ميرا يہ دوسرا بچہ ہے۔ ميرے بچوں کو اس سے بہت زيادہ دلچسپی ہے اور وہ پورے ہفتے اور اس کے بعد بھی اس سلسلے ميں باتيں کرتے رہے۔‘‘

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں