1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موزوں تشخیص اور بروقت علاج سے ڈپریشن کا علاج ممکن

11 اکتوبر 2011

جرمنی کی آٹھ کروڑ بیس لاکھ کی آبادی میں سے چالیس لاکھ کے قریب ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہیں مگر ان میں سے صرف معمولی تعداد کی ضروری علاج تک رسائی ہے۔

https://p.dw.com/p/12qGh
تصویر: Alina Isakovich/Fotolia

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس مرض کے نتیجے میں مریض خودکشی تک کر سکتا ہے لیکن موزوں تشخیص اور بر وقت علاج سے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

یورپین ڈپریشن ایسوسی ایشن کے جرمنی میں نمائندے Detlef Dietrich کہتے ہیں کہ ڈپریشن کے چالیس لاکھ مریضوں میں سے 60 تا 70 فیصد کسی ڈاکٹر کے زیر علاج ہوتے ہیں تاہم اُن میں سے صرف 25 تا 30 فیصد میں کلینیکل ڈپریشن کی تشخیص ہوتی ہے اور ان میں سے بھی محض 10 فیصد کا موزوں علاج ہو پاتا ہے۔

جرمن فاؤنڈیشن فار ڈپریشن ریلیف کے ایگزیکٹیو بورڈ کے چیئرمین Ulrich Hegerl کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کے نتیجے میں خودکشی کے واقعات ہر روز تیس مرتبہ ہو سکتے ہیں۔ جرمنی میں ہر برس 10 ہزار کے قریب افراد خودکشی کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شدید ڈپریشن کی جتنی زیادہ تشخیص ہو گی، خودکشی کے واقعات کی اتنی ہی زیادہ روک تھام کی جا سکتی ہے۔

ڈپریشن کی اہم علامات میں اداسی، بے حسی، نقاہت، بھوک کی کمی اور خودکشی کے خیالات تک ہو سکتے ہیں۔ ایک جرمن مریض نے خود پر طاری ڈپریشن کی کیفیت کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا، ’’ کچھ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انسان کو سردی لگ گئی ہو، نقاہت محسوس ہوتی ہے اور کچھ کھانے کو جی نہیں کرتا، مجھے خاص طور پر خوف محسوس ہوتا تھا لیکن یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ خوف ہے کس چیز کا۔ مجھے صرف اتنا پتہ تھا کہ اب میں کام پر نہیں جا سکتا۔‘‘

Dossierbild Symbol Depression Bild 1
کسی عزیز کے انتقال اور سماجی تنہائی کا بھی ڈپریشن میں کردار ہو سکتا ہےتصویر: fotolia/Kwest

ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن حیاتیاتی، نفسیاتی اور سماجی عوامل کے پیچیدہ کردار کا نتیجہ ہے اور ان عوامل کا کردار ہر شخص میں مختلف ہو سکتا ہے۔

جرمن سوسائٹی آف سائیکیاٹری، سائیکو تھراپی اور نروس ڈیزیزز کے فرانک شنائیڈر کا کہنا ہے کہ کسی عزیز کا انتقال اور سماجی تنہائی کا بھی اس میں کردار ہو سکتا ہے۔

ایک اوسط شخص کے زندگی میں شدید ڈپریشن میں مبتلا ہونے کا امکان 8 فیصد ہوتا ہے۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں