1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مولانا روم ہمارے بھی ہیں‘: افغانستان، پھر مولانا روم کس کے؟

عابد حسین30 جون 2016

ایران اور ترکی مولانا روم کی منظوم تخلیقات کو ’یاداشتِ جہاں‘ کے تحت اپنا مشترکہ ورثہ قرار دینے کی کوشش میں ہیں۔ اِس پر افغانستان نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے مولانا روم کی شخصیت و شاعری پر اپنا بھی حق جتایا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JGjv
تصویر: picture-alliance/CPA Media

بین الاقوامی طور پر اِس حقیقت کا اعتراف کیا جاتا ہے کہ مولانا جلال الدین رومی کی بزرگ شخصیت تقریباً ساری دنیا پر چھائی ہوئی ہے۔ اُن کی شاہکار مثنوی کو انتہائی برگزیدہ تصور کیا جاتا ہے۔ مختلف مسلمان دانشور اور صوفیا اِس کلام میں پنہاں دانش و تصوف کو الہامی کتاب کا سا درجہ دیتے ہیں۔ وہ افغانستان کے شہر بلخ میں آٹھ صدی قبل پیدا ہوئے تھے۔ زندگی کی کئی بہاریں مختلف ملکوں میں گزارنے کے بعد آخرکار وہ ترکی کے شہر قونیا میں آباد ہو گئے تھے۔ اسی شہر میں سے گزرنے والے ایک اور درویش شاہ شمس تبریز نے اُن کی زندگی کی کایا پلٹ دی تھی اور ایک فلسفی و دانشور کو روحانیات کی حیران کن دنیا سے روشناس کرا دیا تھا۔ مولانا روم رحلت کے بعد اسی شہر میں مدفن ہیں۔

Türkei Mausoleum von Mevlana Celaleddin Rumi und Hadschi-Bektasch-Moschee
قونیا میں مولانا روم کا مزارتصویر: picture alliance/blickwinkel/imagesandstories

ترکی اور ایران نے مولانا روم کے عالمی ادب کی عظیم میراث ’مثنوی معنوی‘ اور دوسرے منظوم کلام کو اقوام متحدہ کے خصوصی پروگرام ’یاداشاتِ جہاں‘ کے تحت رجسٹر کرانے کی مشترکہ درخواست دی ہے۔ یاداشاتِ جہاں کا رجسٹر دفتر اقوام متحدہ کے کلچرل ادارے یونیسکو کے زیر نگرانی کام کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کا یہ خاص ادارہ عالمی اہمیت کی تاریخی دستاویزات، اہم شخصیات کے خطوط اور تحریروں کو محفوظ کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ ادارہ خاص طور پر بحران زدہ علاقوں میں ایسی ہی قیمتی اور تاریخی نوادرات کو محفوظ کرنے کی کوشش میں ہے۔

مولانا روم کی تخلیقات کو محفوظ کرنے کی درخواست تہران اور انقرہ حکومتوں نے رواں برس مئی کے مہینے میں جمع کرائی تھی۔ دونوں ملک کی اِس کوشش پر افغانستان کی وزارتِ اطلاعات و ثقافت نے ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ کابل سے افغان وزارت نے اپنے بیان میں کہا کہ افغانستان کو اِس پر فخر ہے کہ عظیم صوفی شاعر اُن کے ایک علاقے بلخ میں پیدا ہوئے تھے۔ افغان وزارت کے ترجمان ہارون حکلیمی کا کہنا ہے کہ اِس مناسبت سے اقوام متحدہ کے ادارے نے کابل حکومت سے بات چیت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔

Sufismus Tanz
رقصِ درویش کی اصطلاح بھی مولائے روم سے منسلک کی جاتی ہےتصویر: AP

ہارون حکلیمی نے اِس کا اعتراف کیا کہ ایران اور ترکی یقینی طور پر اِس معاملے میں افغانستان پر سبقت لے گئے ہیں لیکن وہ یونیسکو کو قائل کریں گے کہ مولانا روم کی تخلیقات پر اُن کا حق بھی تسلیم کیا جائے۔ افغانستان میں مولانا روم کو مولانا جلال الدین بلخی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بلخ صوبے کے گورنر اور سابقہ جنگی سردار عطا محمد نور نے کابل حکومت پر دباؤ ڈال رکھا ہے کہ وہ یونیسکو کے ساتھ اِس معاملے پر مذاکرات کرتے ہوئے افغان نکتہ نظر کی وضاحت کرے۔ بلخ یونیورسٹی کے دانشور پروفیسر صادق عصیان کا کہنا ہے کہ مولانا روم افغانستان کی ثقافت کا اہم حصہ ہیں اور صرف دو ملکوں سے اُن کا تعلق جوڑنا افغانستان کی توہین اور اُس کی ثقافت کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔

مولانا روم بلخ میں سن 1207 میں پیدا ہوئے تھے۔ سڑسٹھ برس کی عمر میں اُن کی رحلت ترک شہر قونیا میں ہوئی تھی۔ امریکی فلمی صنعت ہالی ووڈ مولانا روم کے شاہ شمس تبریز سے ملنے کے بعد کے واقعات پر فلم بنانے کا اعلان کر چکی ہے۔ مشہور اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو اِس فلم میں مولانا روم کا کردار ادا کریں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں