1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ميانمار پر پابندياں روہنگيا مہاجرين کے بحران کا حل نہيں‘

عاصم سلیم
15 نومبر 2017

امريکی وزير خارجہ ريکس ٹلرسن نے ميانمار کے دورے پر کہا ہے کہ وہ اس رياست کے خلاف فی الحال پابنديوں کی کوشش نہيں کريں گے تاہم وہ روہنگيا مسلم اقليت کے خلاف تشدد کی رپورٹوں کی آزاد تحقيقات چاہتے ہيں۔

https://p.dw.com/p/2nf8N
Myanmar Aung San Suu Kyi und Rex Tillerson
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Aung Shine Oo

ريکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ ميانمار کے خلاف وسيع تر اقتصادی پابندياں، فی الحال وقت کی ضرورت نہيں۔ امريکی وزير خارجہ نے يہ بيان آج بروز بدھ نيپيداو ميں اپنے ايک روزہ دورے پر ملکی رہنما آنگ سان سوچی اور فوجی سربراہ سے ملاقات کے بعد ديا۔ مشترکہ پريس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا مزيد کہنا تھا کہ امريکا، ميانمار کو ترقی کرتے ہوئے ديکھنا چاہتا ہے اور اس ضمن ميں پابندياں مسئلے کا حل نہيں۔

ميانمار کی راکھين رياست ميں عسکريت پسندوں کے خلاف ملکی فوج کا آپريشن رواں برس اگست سے جاری ہے۔ اس دوران تقريباً چھ لاکھ روہنگيا مسلمان راکھين سے نقل مکانی کرتے ہوئے پناہ کے ليے بنگلہ ديش ہجرت کر چکے ہيں۔ يہ مہاجرين ميانمار کی فوج پر تشدد کے الزامات عائد کرتے ہيں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق محکمے کے سربراہ بھی ميانمار ميں جاری اقدامات کو نسل کشی کی ایک کتابی مثال قرار دے چکے ہيں۔ علاوہ ازيں انسانی حقوق کی بيشتر تنظيميں بھی ميانمار پر اس سلسلے ميں تنقيد کرتی آئی ہيں۔

ميانمار ميں مختصر قيام کے دوران امريکی وزير خارجہ ريکس ٹلرسن نے کہا کہ وہ ميانمار کی فوج اور ديگر عناصر کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگين خلاف ورزيوں کی مصدقہ اطلاعات پر گہری تشويش کا شکار بھی ہيں۔انہوں نے کہا، ’’وہاں کے سامنے آنے والے مناظر ہولناک ہيں۔‘‘

اس کے برعکس سوچی کی انتظاميہ نے ايسی تمام رپورٹوں کو مسترد کر ديا ہے۔ نہ صرف يہ بلکہ سوچی آزاد تحقيقات کے لیے اقوام متحدہ کے تفتيش کاروں کو راکھين تک رسائی دینے سے بھی انکار کر چکی ہيں۔ يہ امر اہم ہے کہ نوبل امن انعام يافتہ اس سلسلے ميں کافی تنقيد کا شکار رہی ہيں۔ بدھ کو انہوں نے اپنے موقف اور رويے کی وضاحت ديتے ہوئے کہا، ’’ميں اس معاملے پر خاموش نہيں ہوں، ميں جو کہتی ہوں وہ لوگوں کے ليے اتنا دلچسپ نہيں۔‘‘ سوچی کے بقول وہ ايسے بيانات دينے سے گريز کرتی ہيں، جو نسلی تشدد کا سبب بنيں۔

دريں اثناء امريکی وزير خارجہ کی آمد کے موقع پر ميانمار کی فوج کے کمانڈر ان چيف نے راکھين ميں فوج کے آپريشن پر داخلی سطح پر مرتب کردہ ايک رپورٹ بھی جاری کی، جس کے مطابق اس بات کے کوئی شواہد نہيں ہیں کہ فوج نے عام شہریوں کو قتل کيا، آبروريزی کی یا ان کے خلاف بے انتہا طاقت استعمال کیا۔ انسانی حقوق کے اداروں نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ يہ ايک ايسی فوج کی جانب سے معاملات پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے، جو نسلی بنيادوں پر تشدد کی تاريخ رکھتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید