1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرين پاليسی : اتحادی جماعتوں کے مابين بحث و مباحثے کا سبب

عاصم سليم23 نومبر 2015

مہاجرين سے متعلق پاليسی کے حوالے سے جرمنی کی مخلوط حکومت ميں شامل اتحادی پارٹيوں کے مابين گزشتہ ہفتے دوبارہ گرما گرم بحث ہوئی، جس سبب ايک دہائی سے جرمن چانسلر کی ذمہ داری سنبھالنے والی ميرکل دباؤ کا شکار ہيں۔

https://p.dw.com/p/1HAoI
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache

مہاجرين کے ليے سہوليات کے موضوع پر جرمن حکومت ميں شامل قدامت پسندوں اور بائيں بازو کی جانب جھکاؤ والی جماعت سوشل ڈيموکريٹس (SPD) کے مابين گزشتہ ہفتے کے اختتام پر تازہ بحث و مباحثے اور اختلافات کے سبب آج پير کے روز ہونے والے کابينہ کی ايک خصوصی اجلاس کو معطّل کر ديا گيا۔ اس اجلاس ميں سياسی پناہ کے عمل ميں تيزی لانے کے ليے اقدامات پر اتفاق ہونا تھا۔

تاہم اس وقت سب سے بڑا تنازعہ ميرکل کی اپنی جماعت کرسچن ڈيموکريٹک يونين (CDU) اور صوبہ باويريا ميں اس کی اتحادی جماعت کرسچن سوشل يونين (CSU) کے مابين ہے۔ گزشتہ جمعے کے روز ميونخ ميں منعقدہ ايک کانفرنس ميں سی ايس يو کے سربراہ ہورسٹ زيہوفر نے انگيلا ميرکل پر شديد تنقيد کی۔ انہوں نے جرمنی آنے والے پناہ گزينوں کی حد مقرر نہ کرنے کے ليے چانسلر پر تنقيد کی، جس پر ان کی جماعت کے ديگر سياستدانوں نے بھی تائيد کرتے ہوئے انہيں بڑی داد دی۔ اس دوران ميرکل ان ہی کے ساتھ اسٹيج پر موجود تھيں۔

München CSU Parteitag Horst Seehofer Wiederwahl als Parteivorsitzender
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe

اس کے رد عمل ميں سی ڈی يو کے ايک سينئر رکن ايلمار بروک نے ہورسٹ زيہوفر پر جوابی تنقيد کرتے ہوئے ان کے رويے کو ’غير اخلاقی، غير ضروری اور ناقابل قبول‘ قرار ديا۔ بروک نے اس حوالے سے جرمن اخبار ’ٹاگس اشپيگل‘ ميں انٹرويو ديا۔ سی ڈی يو کے چند ديگر ليڈران کا بھی موقف ہے کہ سی ايس يو کے رہنما نے اتحادی جماعت کی ليڈر کے ساتھ نا مناسب رويہ اختيار کيا۔ دوسری جانب زيہوفر بھی اپنے موقف پر برقرار ہيں۔ جرمن ٹيلی وژن n-tv پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اتحادی جماعتوں ميں واقع اختلافات موجود ہيں اور وہ اس پر پردہ نہيں ڈال سکتے۔

جرمن چانسلر کے مشيروں نے انہيں تجويز دی ہے کہ انہيں اگلے موسم بہار ميں ہونے والے رياستی اليکشن سے قبل مہاجرين کی آمد کے سلسلے کو روکنے کے ليے اقدامات کرنا ہوں گے۔ يہ اليکشن 2017ء ميں ہونے والے اگلے وفاقی انتخابات سے قبل اہم آزمائش کی حيثيت رکھتے ہيں۔