1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مہاجرين کو سيکس ايجوکيشن فراہم کی جائے‘

عاصم سلیم Mehyeddin Hussein
7 جنوری 2018

مہاجرين کے جرائم کے بعد جرمنی ميں سخت تر اميگريشن پاليسيوں کے مطالبات سامنے آنے لگتے ہيں۔ ماہر سماجيات محمد اصيلہ کا کہنا ہے نفسياتی پہلوؤں کو مد نظر رکھنا بھی لازمی ہے اور مہاجرين کو سيکس ايجوکيشن فراہم کی جانی چاہيے۔

https://p.dw.com/p/2qSLS
Deutschland Berufsorientierungs- und Ausbildungsbörse (iBOB) in Cottbus
تصویر: Imago/Rainer Weisflog

جرمنی کے جنوبی شہر فرائی برگ ميں ايک سال سے زائد عرصہ قبل يونيورسٹی کی طالبہ ماريہ ايل کو ايک افغان تارک وطن نے جنسی زيادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر ديا تھا۔ تاہم مہاجرين ميں جرائم کی شرح کے حوالے سے بحث و مباحثہ ان دنوں بھی جاری ہے، جس کی وجہ ايک حاليہ واقعہ بنا۔ صوبے رائن لانڈ پلاٹينيٹ کے شہر کانڈل ميں اٹھائيس دسمبر کو ايک پندرہ سالہ جرمن لڑکی کو ايک نوجوان پناہ گزين نے ہلاک کر ديا۔ ان دونوں ہی وارداتوں ميں جنسی يا رومانوی پہلو شامل تھا۔ فرائی برگ ميں قاتل نے مقتولہ انيس سالہ لڑکی کو جنسی زيادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کيا جبکہ کانڈل ميں تارک وطن نے جس لڑکی کو قتل کيا، وہ اس کے ساتھ ايک رومانوی رشتے ميں تھا۔

دونوں ہی واقعات کی سوشل ميڈيا پر کافی مذمت کی گئی۔ کانڈل کے ميئر فولکر پوژ کو کافی ای ميلز اور پيغامات موصول ہوئے، جن ميں لوگ مہاجرين کی ملک بدری اور ان کے خلاف سخت تر پاليسی کے مطالبات کر رہے تھے۔ ايسے واقعات ميں اکثر ايسا ہی ہوتا ہے ليکن جرائم کرنے والوں کی نفسياتی اور سماجی حالت کے بارے ميں کوئی بات چيت نہيں کی جاتی۔

جرمن سوشيالوجسٹ محمد اصيلہ نے ’انفو مائگرينٹس‘ کو بتايا کہ ايسے جرائم کے پيچھے چھپی نفسياتی اور سماجی وجوہات کو جاننے کی ضرورت ہے اور پھر ان کا جائزہ ليا جانا چاہيے، اس بات سے قطہ نظر کہ ذرائع ابلاغ پر کيا بحث جاری ہے۔ انہوں نے کہا، ’’جرمن معاشرے ميں سب ہی کی يہ ذمہ داری ہے کہ تارکين وطن کو تعليم دی جائے اور انہيں يہاں کے طور طريقوں سے آگاہ کيا جائے، بالخصوص نوجوان پناہ گزينوں کو۔‘‘

اصيلہ جرمنی ميں مہاجرين کے انضمام کے ليے کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتے ہيں۔ ان کے بقول اکثر اوقات مہاجرين اس بات سے واقف ہی نہيں ہوتے کہ جرمنی ميں رومانوی رشتے کيسے چلتے ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’نوجوان تارکين وطن کو يہ پتہ ہونا چاہيے کہ يہاں رومانوی يا جنسی روابط ذاتی ذمہ داری کی بنياد پر ہوتے ہيں، جس کا مطلب ہے کہ ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق اپنا پارٹنر ڈھونڈ سکتا ہے اور اس ميں سماج اور روايات کا کوئی کردار نہيں ہوتا۔‘‘

ماہر عمرانيات محمد اصيلہ ان مسائل کا حل مہاجرين کو سيکس ايجوکيشن فراہم کرنے ميں ديکھتے ہيں۔ ان کے بقول اکثر مہاجرين خوش مزاجی اور کسی کے مسکرا دينے کو غلط سمجھ بيٹھتے ہيں کيونکہ يہ ان کے آبائی علاقوں ميں امکاناً مختلف معنوں کا حامل ہوتا ہے۔

مہاجرین اور جرمن باشندوں کو قریب لانے کا نیا طریقہ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید