1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مہاجرين کو کيمپوں کے بجائے جيلوں ميں رکھنا بہتر ہے‘

عاصم سلیم
22 نومبر 2017

ہسپانوی حکومت نے کشتيوں کی مدد سے غير قانونی طور پر اپنی سرزمين تک پہنچنے والے قريب پانچ سو تارکين وطن کو حراست ميں رکھنے کا دفاع کيا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظيموں کی جانب سے اس پر تنقيد جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/2o1qQ
Marokko mehr als 180 Migranten stürmen die spanische Exklave Ceuta
تصویر: Reuters/J. Moron

ہسپانوی وزير داخلہ نے انسانی حقوق کی تنظيموں کی تنقيد پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا، ’’ہم سمجھتے ہيں کہ ديگر ملکوں کی طرح مہاجرين کو کيمپوں ميں رکھنے سے کہيں بہتر ہے کہ انہيں ايسے کسی حراستی مرکز ميں رکھا جائے، جو جديد ترين ٹيکنالوجی، سونے کے انتظام، نہانے دھونے کے بندوبست اور ديگر سہوليات سے ليس ہو۔‘‘ خوان اگناسيو زوئيڈو نے يہ بيان منگل کو ايک مقامی ريڈيو اسٹيشن پر بات چيت کے دوران ديا۔

گزشتہ جمعرات سے لے کر اب تک تقريباً ايک ہزار غير قانونی تارکين وطن جنوبی اسپين پہنچ چکے ہيں۔ ان کی اکثريت کا تعلق شمالی افریقی ملک الجزائر سے ہے۔ کشتيوں کے ذريعے ہسپانوی ساحلوں تک پہنچنے والے تقريباً نصف تارکين وطن کو ملک کے جنوب مشرقی ساحلی علاقوں سے حراست ميں ليا گيا، اور انہيں ملاگا کے قريب آرچيڈونا نامی شہر کے ايک نئے تعمير شدہ حراستی مرکز ميں منتقل کر ديا گيا ہے۔ مہاجرين کے حقوق کے ليے مقامی سطح پر سرگرم گروپ ’ملاگا اکوگے‘ کے سربراہ الیخاندرو کورٹينا کے مطابق وہ اس عمل کے سخت خلاف ہيں۔

يہ امر بھی اہم ہے کہ اسپين ميں غير قانونی طور پر پہنچنے والے تارکين وطن کو عام طور پر پہلے حراستی مراکز ميں ہی رکھا جاتا ہے جس دوران ان کی شناخت اور ابتدائی دستاويزی کارروائی کی جاتی ہے۔ بعد ازاں شناخت اور اندراج کے بعد انہيں مہاجر کيمپوں ميں بھيج ديا جاتا ہے، جہاں ان کی سياسی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی ہوتی ہے۔

بين الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (IOM) کے مطابق اس سال يکم جنوری سے لے کر نومبر کے وسط تک 17,687 مہاجرين اسپين پہنچ چکے ہيں جبکہ گزشتہ برس اسی عرصے ميں 5,445 مہاجرين وہاں پہنچے تھے۔ اس سال اسی دورانيے ميں اٹلی پہنچنے والے غير قانونی مہاجرين کی کل تعداد 114,000 ہے اور جب کہ پچیس ہزار کے قریب مہاجرين يونان بھی پہنچے۔ اسپين ميں مہاجرين کی آمد کا سلسلہ تيزی سے بڑھ رہا ہے۔