1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرين کی آمد کا خطرہ، بلغاريہ ميں سخت تر سرحدی اقدامات

عاصم سليم / Alexander Andreev 11 اگست 2016

مغربی بلقان خطے سے گزرنے والے روٹ کی بندش کے نتيجے ميں مہاجرين کی کوشش ہے کہ بلغاريہ کی مشرقی سرحد کے راستے يورپی يونين ميں داخل ہوا جائے۔ جبکہ حکام ان کوششوں ميں ہيں کہ مزيد باڑيں نصب کر کے اس عمل کو روکا جائے۔

https://p.dw.com/p/1Jfvu
تصویر: Getty Images/D. Kitwood

يورپی ملک بلغاريہ کی مشرقی سرحد پر واقع شہر ريزووو کی آبادی آج کل اس فکر ميں مبتلا ہے کہ يورپی يونين اور ترکی کے مابين معاہدے کے ناکام ہو جانے يا اسے خارج کر ديے جانے کی ممکنہ صورت ميں پناہ گزينوں کی ايک نئی لہر ان کے علاقے کا رخ نہ کرے۔ ترکی ميں حاليہ ناکام فوجی بغاوت کے تناظر ميں ريزووو کے عوام کو خدشہ ہے کہ مہاجرين کی يورپ تک رسائی محدود کرنے کے ليے معاہدہ ناکام ہو سکتا ہے، جس کے نتيجے ميں ترکی ميں موجود مہاجرين 240 کلوميٹر طويل یہ سرحد پار کرتے ہوئے بلغاريہ ميں داخل ہو سکتے ہيں۔

دريں اثناء بلغاريہ اور ترکی کی سرحد پر ريزووو کے مقام پر بلغاريہ کی حدود ميں تيس کلوميٹر طويل اور ساڑھے تين ميٹر اونچی باڑ نصب کر دی گئی ہے۔ اب حکام کی کوشش ہے کہ يونان کے ساتھ ملنے والی 484 کلوميٹر طویل سرحد پر بھی باڑ لگا دی جائے۔ مقدونيہ کی يونان سے ملنے والی سرحد کی بندش کے بعد بلغاريہ ميں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے تارکين وطن کی تعداد ميں اضافہ نوٹ کيا گيا ہے۔ ان اقدامات اور پيش رفت کے باوجود صوفيہ حکام کا کہنا ہے کہ وہ انقرہ کے ساتھ اچھے باہمی تعلقات کے خواہاں ہيں، جس کی ايک وجہ يہ بھی ہے کہ بلغاريہ ميں ترک باشندوں کی ايک بڑی تعداد مقيم ہے۔

بلغاريہ کی سرحدی پوليس کے سابقہ ڈائريکٹر ويليری گريگروو نے ڈوئچے ويلے سے خصوصی طور پر گفتگو کرتے ہوئے بتايا کہ بلغاريہ کے راستے ہيومن ٹريفکنگ کافی منظم جرم ہے۔ انہوں نے بتايا، ’’مہاجرين اور پناہ گزينوں کو ترک سرحد سے سربيا کی سرحد تک 72 گھنٹوں ميں پہنچا ديا جاتا ہے۔ سفر کے پہلے حصے ميں انسانوں کے اسمگلر ان مہاجرين کو کسی گاڑی ميں بلغاريہ کے دارالحکومت صوفيہ تک بھيجتے ہيں، جہاں يہ لوگ ہر ايک رات گزارنے کی قيمت بيس يورو ادا کرتے ہيں۔‘‘

ويليری گريگروو کے بقول يونان اور بلغاريہ کا درميان سرحدی علاقہ کافی دشوار گزار ہے اور اس کی کارآمد نگرانی کو يقينی بنانے کے ليے دونوں ملکوں کے سرحدی محافظوں کی طرف سے گشت ضروری ہے۔ سرحدی پوليس کے سابقہ ڈائريکٹر کے مطابق پوليس فورس ميں بد عنوانی بھی ايک مسئلہ ہے۔ انہوں نے بتايا، ’’يہ کہا جا سکتا ہے کہ انسانوں کے اسمگلروں، سرحدی پوليس اور بلغاريہ کی پوليس کے درميان بزنس پارٹنرشپ ہے۔‘‘ انہوں نے مزيد کہا کہ اعلیٰ حکام اس ’پارٹنرشپ‘ کے خلاف کارروائی نہيں کرتے۔ گريگروو کے مطابق جب تک ايسے نيٹ ورکس کو تباہ نہيں کيا جاتا، اس وقت تک انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف کامياب کارروائی ممکن نہيں اور ايسی صورت ميں عين ممکن ہے کہ ريزووو يورپ جانے والے ان گنت مہاجرين کی گزر گاہ بن جائے۔