1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرين کی بے نام لاشوں کی آخری رسومات ادا کرنے والا فرشتہ

عاصم سلیم
16 اگست 2017

تيونس ميں ايک شخص سالہا سال سے ساحل پر بہہ کر آ جانے والی لاشوں کی تدفين کا کام کيا کرتا ہے۔ اس کے بقول پناہ کے ليے غير قانونی راستہ اختيار کرنے کا ہر گز يہ مطلب نہيں کہ کسی کو موت کے بعد آخری رسومات تک نصيب نہ ہوں۔

https://p.dw.com/p/2iMO4
Tunesien Libyen Flüchtlinge Beerdigung
تصویر: Getty Images/F.Nasri

تيونس کے جنوبی ساحلی شہر جرجيس کے ايک ميدانی علاقے ميں ايک ادھيڑ عمر شخص سخت دھوپ و گرمی ميں زمين کی کھدائی کرتے ہوئے وقفہ ليتا ہے۔ در اصل شمس دين مرزوگ نے ايک بڑا ہی منفرد اور نيک کام اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ تيونس کا يہ باون سالہ شہری اپنے آبائی شہر کی ساحلی پٹی پر بہہ کر آنے والی مہاجرين کی تمام لاشوں کی آخری رسومات ادا کرتا ہے۔

حاليہ برسوں کے دوران تيونس کا پڑوسی ملک ليبيا مہاجرين کی يورپ کی جانب غير قانونی ہجرت کا گڑھ بن کر ابھرا ہے۔ بر اعظم افريقہ اور دنيا کے چند ديگر حصوں سے لاکھوں تارکين ليبيا سے بحيرہ روم کے راستے اٹلی پہنچتے ہيں۔ صرف اس سال ہی ايسے مہاجرين کی تعداد لگ بھگ ايک لاکھ بنتی ہے۔ سياسی پناہ کی تلاش ميں سينکڑوں افراد راستے ميں ہی دم توڑ ديتے ہيں، کہيں کسی صحرا ميں اسمگلر کے ہاتھوں دھوکہ کھانے کی وجہ سے تو کہيں بھوک و پياس سے نڈھال ہو کر۔ تاہم اکثريتی اموات بحيرہ روم ميں کشتياں ڈوبنے کے سبب ہوتی ہيں۔

شمس دين مرزوگ
شمس دين مرزوگتصویر: Getty Images/F.Nasri

شمس دين مرزوگ کا کہنا ہے، ’’اگر لوگوں نے بے انصافی اور غربت کے سبب پناہ کے ليے غير قانونی راستہ اختيار کيا، تو اس کا يہ مطلب تو ہر گز نہيں کہ عزت و احترام کے ساتھ انہيں دفنايا تک نہ جا سکے۔‘‘  مرزوگ پہلے ماہی گيری کرتا تھا تاہم اب وہ مچھيروں کی مقامی ايسوسی ايشن کا سربراہ ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ پچھلے بارہ برسوں ميں وہ سينکڑوں مہاجرين کی لاشوں کی رضاکارانہ بنيادوں پر آخری رسومات ادا کر چکا ہے۔ اس کے بقول مشکلات ميں گھری يا پھر ڈوبتی ہوئی کشتياں ديکھ کر حکام کو اطلاع دينے والوں ميں مچھيرے سرفہرست ہيں کيونکہ سمندر سے ہی ان کی روزی روٹی جڑی ہے۔ مرزوگ کا مزيد کہنا ہے، ’’آپ کھڑے ہو کر لوگوں کو مرتا ہوا تو نہيں ديکھ سکتے۔‘‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سال اب تک مختلف شہريت کے 126 افراد کو جرجيس کے سمندری علاقوں سے بچايا جا چکا ہے۔ اسی دوران چواليس افراد کی لاشيں بھی ملی ہيں۔ تيونس کے کوسٹ گارڈز اکثر مہاجرين کو ڈوبنے سے بچاتے ہيں ليکن ان کی تدفين و ديگر انتظامات ان کی ذمہ داری نہيں۔

شمس دين مرزوگ نے ذاتی طور پر يہ ذمہ داری اٹھا رکھی ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ اکثر لاشوں کے اعضاء تک نہيں ہوتے۔ وہ بڑی سادگی کے ساتھ اور مٹی کی قبريں بنا کر لاشوں کو دفن کر ديتا ہے۔ اس کے مطابق مہاجرين اور ہجرت صرف تيونس کا مسئلہ نہيں بلکہ يہ ايک عالمی سطح کا مسئلہ ہے۔ باون سالہ شہری اپنے ملک کی حکومت سے مہاجرين کے ليے ايک قبرستان کا مطالبہ کرتا ہے۔