1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرين کی مدد کے ليے ’گيم چينجر‘ مہم

عاصم سليم10 مئی 2016

اقوام متحدہ کی جانب سے يہ تجويز پیش کی گئی ہے کہ رکن ممالک دنيا بھر ميں موجود کئی ملين مہاجرين کی ذمہ داری اٹھانے اور منصفانہ بنيادوں پر بانٹنے کے ليے ايک باقاعدہ نظام بنائيں اور اس پر متفق ہوں۔

https://p.dw.com/p/1Ikvy
Lage der Flüchtlinge in Jordanien
تصویر: DW/T. Krämer

ايسے کسی نظام کے قيام کے ساتھ اقوام متحدہ کی قيادت ميں ايک مہم بھی چلائی جائے گی، جس کا مقصد پناہ گزينوں کی ساکھ کو متاثر کرنے والے اجنبيوں سے خوف اور نسل پرستی کا خاتمہ ہو گا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے يہ اعلان آج منگل کے روز عالمی سطح پر ہونے والی ہجرت کے موضوع پر جاری ہونے والی ايک رپورٹ کے موقع پر کيا گيا۔

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس وقت دنيا بھر ميں قريب بيس ملين مہاجرين موجود ہيں جبکہ اپنے ہی ممالک ميں بے گھر ہو جانے والوں کی تعداد چاليس ملين کے لگ بھگ ہے۔ مہاجرين کی چھياسی فيصد تعداد ترقی پذير ملکوں ميں قيام پذير ہے۔ يہ امر بھی اہم ہے کہ مہاجرين زيادہ تر اپنے آبائی ممالک سے قريبی ملکوں ميں پناہ ليتے ہيں۔ علاوہ ازيں عالمی سطح پر 244 ملين تارکين وطن بھی موجود ہيں جو ايسے ملکوں ميں رہتے اور ملازمت کرتے ہيں جہاں ان کی پيدائش نہيں ہوئی ہو۔

اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ بيان ميں کہا گيا ہے کہ مہم مہاجرين کے بحران سے نمٹنے کے حوالے سے ہونے والے بحث و مباحثے ميں بڑھتے ہوئے منفی رويے اور نقطہ نظر کے انسداد کے ليے کام کرے گی۔ اس بارے ميں بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا، ’’سرحدوں پر باڑيں لگانے اور ديواريں کھڑی کرنے والے رکن ممالک کی تعداد ميں اضافے پر ميں تشويش کا شکار ہوں۔‘‘ سيکرٹری جنرل کے بقول مہاجرين کے خلاف ’اجنبيوں سے نفرت اور نسل پرستانہ‘ رويے نئی حديں پار کر رہے ہيں۔

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس وقت دنيا بھر ميں قريب بيس ملين مہاجرين موجود ہيں
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس وقت دنيا بھر ميں قريب بيس ملين مہاجرين موجود ہيںتصویر: IOM Ethiopia

اقوام متحدہ کی اس بارے ميں ہونے والی سمٹ کی خصوصی مشير کارن ابو زيد نے بتايا کہ اقوام متحدہ کی قيادت ميں يہ مہم ميزبان ممالک اور وہاں پناہ لينے والے تارکين وطن و مہاجرين کے درميان براہ راست اور اضافی تعلقات پر زور دے گی۔ رکن ممالک پر زور ديا جائے گا کہ پناہ گزينوں اور مہاجرين کو تعليم، زبان سيکھنے، پيشہ وارانہ تربيت اور ملازمت کے مواقع سے متعلق پروگراموں ميں شامل کيا جائے۔

اس پيش رفت پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے انسانی حقوق کے ليے سرگرم عالمی تنظيم ايمنسٹی انٹرنيشنل نے اسے ’گيم چينجر‘ کہا ہے يعنی اس کے اثرات کافی مثبت ثابت ہو سکتے ہيں۔ تاہم ادارے کی جانب سے يہ بھی کہا گيا ہے کہ اس کی کاميابی کا دارومدار اس پر ہے کہ رکن رياستيں ذمہ داری بانٹنے کے ايک مستقل نظام پر متفق ہوں۔