1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مہاجرين کے ليے دروازے کھولے بيٹھے ہيں، کوئی آتا ہی نہيں‘

عاصم سليم28 فروری 2016

جہاں ايک طرف چند مشرقی يورپی ممالک مہاجرين کی يورپ آمد کو محدود کرنے کی کوششوں ميں ہيں، وہيں ہسپانوی شہر بارسلونا ميں تارکين وطن کو پناہ کی فراہمی کے ليے بلدياتی سطح پر باقاعدہ ايک منصوبے کا اعلان کر ديا گيا ہے۔

https://p.dw.com/p/1I3e3
تصویر: picture alliance/chromorange

اس ہفتے يورپی يونين کے رکن ممالک کے وزرائے داخلہ بيلجيم کے دارالحکومت برسلز ميں ہونے والے ايک اجلاس ميں يہ طے کرنے کی کوششوں ميں تھے کہ مہاجرين کے بحران سے متحد ہو کر کس طرح نمٹا جائے۔ اسی دوران اسپين کے شہر بارسلونا ميں ’بارسلونا ريفيوج سٹی‘ کے نام سے پناہ گزينوں کی امداد کے ليے منصوبے کی تفصيلات جاری کی گئيں۔ اس منصوبے کا اعلان بارسلونا کے ميئر آدا کولاؤ نے گزشتہ برس ماہ اگست ميں کيا تھا، جس کے فوری بعد ميڈرڈ، ويلينسيا اور کاديز ميں بھی اسی طرح کے منصوبوں پر کام شروع کر ديا گيا۔

ابتداء ميں اسپين کی قدامت پسند حکومت نے مہاجرين کی تقسيم کے يورپی منصوبے کے تحت 2,749 تارکين وطن کو پناہ فراہم کرنے کی حامی بھری تھی تاہم اب يہ تعداد بڑھا کر 17,680 کر دی گئی ہے۔

ہسپانوی کميشن برائے مہاجرين کی کاتالونيا کے شمال مشرقی خطے کی خاتون ترجمان پسکالے کوئیسارڈ کے بقول اب تک صرف اٹھارہ تارکين وطن پناہ کے ليے اسپين پہنچے ہيں، جو قابل افسوس ہے۔ يہ ايجنسی کئی ماہ سے پناہ گزينوں کی آمد کی منتظر ہے اور انہيں سہوليات کی فراہمی کے ليے تمام تر تيارياں مکمل کيے بيٹھی ہے۔ کاتالونيا خطے کے صدر مقام بارسلونا ميں قبل ازيں صرف دس مراکز کو پناہ گزينوں کے ليے دستياب بنايا گيا تھا تاہم اب اس تعداد کو بڑھا کر اکتاليس تک پہنچايا جا چکا ہے جبکہ شہری انتظاميہ عنقريب پچاس مزيد مراکز فعال بنانے والی ہے۔ صرف رہنے و کھانے پينے کے انتظامات ہی نہيں بلکہ شورش زدہ ممالک سے پناہ کے ليے يورپ پہنچنے والے تارکين وطن کو نفسياتی و طبی امداد فراہم کرنے کا بندوبست بھی کيا گيا ہے۔

بلقان کے ممالک کے ليڈرز کے ويانا ميں ہونے والے اجلاس کی تصوير
بلقان کے ممالک کے ليڈرز کے ويانا ميں ہونے والے اجلاس کی تصويرتصویر: picture-alliance/epa/C.Bruna

ستمبر سن 2015 ميں يورپی رہنماؤں نے ایک لاکھ ساٹھ ہزار تارکين وطن کی مختلف يورپی رياستوں ميں تقسيم پر اتفاق کيا تھا تاہم اس اسکيم کے تحت اب تک صرف چھ سو مہاجرين کو منتقل کيا گيا ہے۔ بارسلونا کے ميئر آدا کولاؤ کے ليے يہ صورتحال ناقابل قبول ہے۔ اب بارسلونا کی حکومت چاہتی ہے کہ مختلف يورپی شہر اس مسئلے کا حل تلاش کريں اور اس ضمن ميں يورپی شہروں کی نمائندگی کرنے والی ايسوسی ايشنز کے ساتھ رابطے ميں ہے۔

’بارسلونا ريفيوج سٹی‘ کے ليے تقريباً ساڑھے دس ملين يورو مختص کيے گئے ہيں۔ اس منصوبے کے کوآرڈينيٹر اگناسی کالبو کا کہنا ہے کہ ’ويسے تو يہ رياست کا کام ہوتا ہے تاہم انسانی سطح پر ہم خود کو اس کام سے بری الذمہ نہيں سمجھ سکتے۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’انسانی حقوق، يورپی قوانين سے زيادہ اہم ہيں۔‘‘