1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرين کے ليے فون چارج کرنے کا نيا آلہ ’آسمانی تحفہ‘ ہے

عاصم سليم17 جون 2016

مہاجرين اسمارٹ فون کے ذريعے نہ صرف اپنے اہل خانہ سے رابطے ميں رہتے ہيں بلکہ اپنے سفر کے بارے ميں آگہی بھی حاصل کرتے ہيں۔ چند طلباء نے اپنی ايک ايجاد سے مہاجرين کے ليے فون چارجنگ کا مسئلہ حل کر ديا ہے۔

https://p.dw.com/p/1J8ac
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Kästle

يونان ميں پھنسے مہاجرين کے ليے اسمارٹ فون لائف لائن کی سی حيثيت رکھتا ہے تاہم صرف اس وقت تک جب تک اس ميں بيٹری ہو۔ سننے ميں تو يہ بڑی عجيب سی بات لگتی ہے ليکن کھچا کھچ بھرے کيمپوں ميں بجلی کی فراہمی ذرا مشکل ثابت ہورہی ہے۔ کيفے وغيرہ ميں بھی بجلی کے ساکٹ کے ارد گرد بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کا ايک ہجوم جمع ہوتا ہے جو بے چينی سے کئی کئی گھنٹوں تک اپنے موبائل فون چارج کرنے کی باری کا انتظار کرتے ہيں۔

برطانيہ کی ايڈنبرا يونيورسٹی کے چند طلباء نے اس مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالا ہے۔ طالب علموں کے اِس منصوبے کا نام ’پراجيکٹ ايلپیس‘ ہے یعنی ’یونان میں امید‘۔ ان طلبا نے ايسی ڈيوائس يا آلہ تيار کيا ہے جو شمسی توانائی کی مدد سے چارجنگ کرتا ہے اور دھوپ کی تو ويسے ہی يونان ميں کمی نہيں۔ يونيورسٹی کے طلباء نے ابتدائی طور پر کيمپوں ميں دو ايسے چارجنگ یونٹس نصب کیے ہیں۔۔ ايک ڈيوائس ميں بارہ پلگ ہوتے ہيں اور يہ ايک دن يعنی چوبيس گھنٹے کے دورانيے ميں 240 افراد کے موبائل فون کی بیٹریوں کے لیے بجلی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

کيمپوں ميں مہاجرين اس سہولت سے کافی زيادہ خوش دکھائی ديتے ہيں
کيمپوں ميں مہاجرين اس سہولت سے کافی زيادہ خوش دکھائی ديتے ہيںتصویر: DW/M. Ilcheva

اس ايجاد کا خيال بيس سالہ طالب علم اليگزينڈروس اينجلوپولس کو اس وقت آيا تھا، جب وہ گزشتہ برس يونانی جزيرے ساموس پر تھا۔ يہ جزيرہ مشرق وسطیٰ، شمالی افريقہ اور ايشيا کے کئی ملکوں سے سياسی پناہ کے ليے يورپ پہنچنے والے ہزارہا، لاکھوں مہاجرين کی پہلی منزل تصور کیا جاتا ہے۔ ايک وقت يوميہ بنيادوں پر سينکڑوں پناہ گزين خطرناک سمندری سفر طے کر کے اس کے ساحلوں پر اترا کرتے تھے۔

اليگزينڈروس اينجلوپولس نے اس بارے ميں بات کرتے ہوئے بتايا، ’’جب ميں جزيرے پر تھا، تو لوگ مجھ سے آ کر ميرا فون اور انٹرنيٹ استعمال کرنے کی اجازت مانگا کرتے تھے تاکہ وہ اپنے اہل خانہ کو اپنی خيريت کی اطلاع دے سکيں۔‘‘ اس کے بقول کئی مرتبہ ايسا ہوا کہ فون چارج کرنے کے ليے درجنوں لوگ ايک ہی پلگ کے ليے قطار ميں کھڑے رہے۔ چارجنگ کے اس آلے کے شريک بانی سيميول کيلر ہالز نے کہا، ’’ہم صرف مقامی کميونٹی کے ليے کچھ مثبت کرنا چاہتے تھے اور وہ بھی قابل تجديد توانائی کے ذریعےسے۔‘‘

’پراجيکٹ ايلپیس‘ کے پہلے دو يونٹ شمسی توانائی کے ٹيکنالوجی سے منسلک يونانی کمپنی اينٹک کی مدد سے بنائے گئے ہيں۔ بعد ازاں عام لوگوں کی مالی مدد سے يہ منصوبہ آگے بڑھا اور اب تين يونٹ فعال ہيں۔ ابتدائی طور پر يہ يونٹس يونانی جزيرے ليسبوس کے ’کارا ٹيپے‘ نامی مہاجر کيمپ ميں لگائے گئے ہيں اور وہاں کے مہاجرین اس سہولت سے کافی زيادہ خوش دکھائی ديتے ہيں۔