1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرين ہالينڈ کی جيلوں ميں خوشی سے قيام پذير، آخر کيوں؟

عاصم سليم17 مئی 2016

ہالينڈ ميں جرائم کی شرح ميں کافی کمی رونما ہوئی ہے، يہی وجہ ہے کہ حکام خالی قيد خانوں کو پُر کرنے کے ليے نت نئے طريقے آزما رہے ہيں۔ ايمسٹرڈيم حکومت نے اب کئی جیلوں کو مہاجر کيمپوں ميں تبديل کرنا شروع کر ديا ہے۔

https://p.dw.com/p/1IpDP
تصویر: picture alliance/dpa/Y. Valat

نيوز ايجنسی ايسوسی ايٹڈ پريس کی ہالينڈ کے شہر ہارليم سے منگل سترہ مئی کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق ملک ميں جرائم کی مسلسل گھٹتی ہوئی شرح کو مد نظر رکھتے ہوئے چند قيد خانوں کو عارضی بنيادوں پر مہاجرين کی رہائش گاہوں کے طور پر استعمال ميں لايا جا رہا ہے۔ اب تک وہاں بارہ سابقہ جيلوں کو مہاجر کيمپوں ميں تبديل کيا جا چکا ہے۔ جيلوں کو مرمت اور ان کے ڈھانچوں ميں تبديلی کے بعد ہی تارکين وطن کے ليے رہائش گاہوں ميں تبديل کيا جاتا ہے، جس کے بعد کسی کے ليے يہ پہچاننا مشکل ثابت ہوتا ہے کہ وہ سابقہ طور پر مجرمان کو قيد کرنے کے ليے استعمال ميں لائی گئی تھيں۔

اس کے برعکس ہارليم اور آرنہيم ميں قائم قيد خانوں کو اپنے منفرد فن تعمير کی وجہ سے قومی يادگار مانا جاتا ہے اور اسی ليے حکام کے ليے ان عمارات اور ان کی تعمير ميں رد و بدل کرنا ممکن نہ تھا۔ گزشتہ برس تقريباً ساٹھ ہزار پناہ گزينوں نے سياسی پناہ کے ليے ہالينڈ کا رخ کيا اور ايسے ميں حکام کو ان شہروں ميں موجود ان تاريخی قيد خانوں کو بھی استعمال ميں لانا پڑ گيا۔ مہاجرين کو رہائش فراہم کرنے والی ڈچ سرکاری ايجنسی کے بورڈ کی ايک رکن جينٹ ہيلڈر کا اس بارے ميں کہنا ہے، ’’ہميں اس بارے ميں دو مرتبہ سوچنا پڑا کہ مہاجرين کو دروازوں والے سيلز يا جيلوں ميں رکھا جائے يا نہيں۔‘‘ ان کے بقول آس پاس کے چند مقامی لوگوں نے يہ سوال بھی اٹھايا کہ شام سے تعلق رکھنے والے پناہ گزينوں کو ايسے دروازے والے کمروں ميں کيسے رکھا جا سکتا ہے، اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ہو سکتا ہے کہ ان کے آبائی ملک ميں انہيں ايسی جيلوں ميں رکھا گيا ہو۔ جينٹ ہيلڈر نے بتايا، ’’اس ليے ہم نے فيصلہ کيا کہ اگر کچھ لوگوں کو يہاں رہنا منظور نہ ہو تو ان کی رہائش کے ليے متبادل انتظام کيا جائے گا۔‘‘

گزشتہ برس تقريباً ساٹھ ہزار پناہ گزينوں نے سياسی پناہ کے ليے ہالينڈ کا رخ کيا
گزشتہ برس تقريباً ساٹھ ہزار پناہ گزينوں نے سياسی پناہ کے ليے ہالينڈ کا رخ کياتصویر: picture-alliance/dpa/F.Singer

دوسری جانب اس عہديدار نے يہ بھی کہا کہ سابقہ قيد خانے ان کے مقصد کے ليے کافی موزوں ہيں۔ ان کا ادارہ اس وقت ہالينڈ بھر ميں تقريباً 120 ايسے مقامات پر 41,000 مہاجرين کو رہائش فراہم کر رہا ہے۔ جينٹ ہيلڈر نے وضاحت کرتے ہوئے بتايا، ’’کمرے ايک سے دو افراد کے ليے ہوتے ہيں۔ اس کے علاوہ وہاں ورزش کے ليے جم بھی قائم ہوتے ہيں اور ايک اچھا باورچی خانہ بھی۔‘‘ ان کے مطابق اگر اس حساب سے ديکھا جائے تو تمام تر درکار سہوليات وہاں موجود ہوتی ہيں۔

نيوز ايجنسی ايسوسی ايٹڈ پريس نے ايسے سابقہ قيد خانوں ميں رہائش پذير مہاجرين سے ان کی رائے جاننے کے ليے سوالات کيے تو زيادہ تر کو کھانے کے معيار کے علاوہ کوئی اور شکايت نہيں تھی۔ اگرچہ کہنے کو وہ سابقہ جيلوں ميں رہ رہے ہيں تاہم ان کے کہيں آنے جانے پر پابندی نہيں۔ سولہ سالہ شامی پناہ گزين عبدل معين الحاجی سابقہ طور پر ايک خيمے ميں کافی وقت گزارنے کے بعد آرنہيم کی ايک سابقہ جيل کو اپنا گھر کہنے سے بالکل نہيں کتراتا۔ وہ کہتا ہے، ’’ميں ذرا بھی محسوس نہيں کرتا کہ ميں جيل ميں ہوں۔ سب سے اہم بات بس يہی ہے کہ ہم سب يہاں محفوظ ہيں۔‘‘