1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین دوست جرمن میئر عبداللہ کا شکر گزار

عاطف توقیر ریبیکا شٹاؤڈین مائر
29 نومبر 2017

جرمن قصبے آلٹینا میں مہاجرین کے حامی میئر پر ہونے والے چاقو سے حملے کے بعد اس قصبے میں ایک طرف تو دھچکا محسوس کیا جا رہا ہے اور دوسری جانب حکام پر عدم اعتماد میں اضافے کی بات بھی سنی جا سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/2oTo9
Deutschland Altena - Bürgermeister Andreas Hollstein verlässt City Döner Pizza
تصویر: DW/R. Staudenmaier

الٹینا کے میئر آندریس ہولشٹائن پر ایک کباب شاپ ميں چاقو حملہ ہوا تو وہ 24 گھنٹے کے اندر دوبارہ اپنے ہاتھوں میں گل دستہ لیے جائے واقعہ پر پہنچ گئے۔ وہاں انہوں نے اپنی زندگی بچانے والے افراد کا شکریہ ادا کیا۔

امریکی ریاست کیلیفورنیا تارکین وطن دوست ریاست بن گئی

کیا میرکل کی مہاجرین پالیسی ان کی شکست کا سبب بن سکتی ہے؟

اس واقعے میں ہولشٹائن کی گردن میں 15 سینٹی میٹر کا زخم آیا تھا جب کہ سٹی ڈونر پیزا نامی دکان پر انہوں نے اس کے مالک دیمیر عبداللہ اور ان کے بیٹے کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے حملہ آور کو روکنے اور قابو کرنے میں مدد کی تھی۔

ہولشٹائن نے اس سے قبل ایک پریس کانفرنس میں کہا، ’’مجھے یقین ہے کہ اگر میری مدد نہ کی جاتی تو اس وقت میں زندہ نہ ہوتا۔‘‘

حملہ آور کو روکنے کی کوشش ميں عبداللہ کو بھی بائیں ہاتھ پر زخم آیا۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ میئر نے انہیں کیا دیا، تو ان کا مسکراتے ہوئے کہنا تھا، ’پھول۔‘

مہاجرین کا دوست میئر

قانون کے مطابق اس قصبے کو 270 تارکین وطن کو اپنے ہاں پناہ دینا تھی، تاہم ہولشٹائن نے ساڑھے تین سو افراد یعنی مطلوبہ تعداد سے ایک سو زیادہ، مہاجرین کو قبول کیا۔ اسی تناظر میں الٹینا کے قصبے کو جرمنی کا پہلا قومی انعام برائے انضمام دیا گیا۔

تاہم ہولشٹائن کی یہی مہاجرین دوست کاوشیں پیر کی شب ان پر حملے کا باعث بھی نہیں۔ 56 سالہ حملہ آور نے اس دکان میں ہولشٹائن سے پوچھا، ’’کیا تم ہی میئر ہو۔‘‘ اور پھر مہاجرین کی پالیسیوں سے متعلق جملے ادا کرتے ہوئے ہولشٹائن کے گلے کو کاٹنے کی کوشش کی۔

ترکی سے رومانیہ ، مہاجرت کا ایک خطرناک راستہ

اس مشتبہ حملہ آور کے بارے میں استغاثہ کا کہنا ہے کہ اس کے خون میں الکوحل کی انتہائی زیادہ سطح کا علم ہوا ہے اور اسے قتل کے مقدمے کا سامنا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس حملے کے درپردہ عوامل ’سیاسی‘ تھے۔

منقسم قصبہ

جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے قصبے الٹینا کے شہری اس واقعے پر دھچکے سے دوچار ہوئے ہیں، تاہم مہاجرین کے موضوع پر رہائشیوں کی رائے منقسم بھی ہے۔

74 سالہ ڈورس بائر کے مطابق، ’’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ یہ انتہائی بھیانک واقعہ ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس قصبے کے بعض رہائشیوں کو گو کہ مہاجرین سے بابت پالیسیوں پر اعتراضات ہیں، تاہم مسلح تنازعات کے شکار علاقوں سے پناہ کی تلاش میں نکلنے والے افراد کو جگہ ضرور دی جانا چاہیے۔