1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین، زبان کی مشکلات سے کیسے لڑتے ہیں؟

عاطف بلوچ، روئٹرز
28 ستمبر 2016

فرانسیسی شہر کیَلے میں واقع مہاجر کیمپ مختلف زبانوں کا ایک مرقع دکھائی دیتا ہے۔ ذرا سی دری، اس پر عربی کا تڑکا اور پھر پنجابی، پشتو، کردش، تِگینیا اور فارسی کی ہلکی سی آمیزشن یہاں ایک نئی بولی کا سماں پیدا کرتی ہے۔

https://p.dw.com/p/2QgEI
Paris Camp Flüchtlinge Migranten Räumung 'Avenue de Flandre' Frankreich
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Valat

چینل سرنگ کے قریب آباد اس فرانسیسی علاقے میں صرف ایک زبان ہے، جو شاید کہیں سنائی نہیں دیتی اور وہ ہے فرانسیسی۔ سات سے لے کر دس ہزار تک مہاجرین اس علاقے میں موجود ہیں، جن کا خواب یہ ہے کہ وہ کسی طرح چینل ٹنل عبور کر کے برطانیہ پہنچ جائیں، مگر ان مہاجرین کی انگریزی بھی نہایت ٹوٹی پھوٹی ہے۔ اور انگریزی زبان میں کسی طرح بات کر بھی لیں، تو فرانس میں انگریزی زبان ایک طرح سے نہ ہونے کے برابر ہے۔

’جنگل‘ میں کبھی کبھی یہی صورت حال نہایت گمبھیر ہو جاتی ہے کہ کہا کچھ جاتا ہے اور اس کا مطلب بالکل کچھ اور نکلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امدادی ادارے اس علاقے میں مزید ماہر مترجم تعینات کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔

مسیحی خیراتی ادارے سے وابستہ ایک رضاکار مریم گوئری کو حال ہی میں کہا گیا کہ وہ اپنی زبان کی ہنرمندی کا استعمال کرتے ہوئے موبائل فون پر ہدایات دیتے ہوئے ایک بچے کی پیدائش میں مدد فراہم کریں۔

Frankreich Calais Jungle Zaun Flüchtinge
ان مہاجرین کا خواب یہ ہے کہ کسی طرح وہ برطانیہ پہنچ جائیںتصویر: picture-alliance/AA/M. Yalcin

ان کا کہنا ہے، ’’ہسپتال سے مجھے کال موصول ہوئی کہ ایک سوڈانی مہاجر خاتون کی مدد کی جائے۔ وہ ایک بچے کو جنم دینے کی پیچیدگیوں کا شکار تھی۔ سو انہوں نے ٹیلی فون کو لاؤڈ اسپیکر پر لگا دیا تاکہ میں دائی کی جانب سے دینے والی ہدایات کو ترجمہ کر سکوں۔ زور لگاؤ۔ سانس لو۔ میں یہ اس وقت تک کہتی رہی، جب تک کہ میں نے بچے کے رونے کی آواز نہ سن لی۔‘‘

فرانس میں قائم تنظیم ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (MSF) دنیا کے مختلف ممالک میں جنگی تنازعات اور قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کی مدد سن 1970 کی دہائی سے کر رہی ہے، تاہم اس تنظیم نے بھی کسی ایک کیمپ میں ایک طرح سے ’پوری دنیا‘ کبھی ایک ساتھ نہیں دیکھی۔

کیَلے کے لیے اس تنظیم کے مشن کے سربراہ فرانک ایزنی کا کہنا ہے، ’’ہم عموماﹰ دو زبانیں بولتے تھے یا زیادہ سے زیادہ تین۔ مگر یہ واحد جگہ ہے، جہاں ہم ان افراد کی مدد طلب کر رہے ہیں، جو چار، پانچ بلکہ چھ زبانیں تک جانتے ہوں۔‘‘

ایم ایس ایف ’جنگل‘ میں کام کرنے والی وہ واحد تنظیم ہے، جس نے اپنے اسٹاف کے لیے مترجم تعینات کر رکھے ہیں۔ یہ چھ مترجم خود بھی مہاجر ہیں، جو کئی برس قبل یہاں پہنچے تھے۔