1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کو کپڑا و مکان ہی نہیں تعلیم بھی چاہیے، ماہرين

عاصم سليم16 اکتوبر 2015

جرمن شہر فرينکفرٹ ميں جاری دنيا کے سب سے بڑے کتب ميلے ميں ادبی ماہرين نے کہا ہے کہ مہاجرين کے ليے کھانے پينے کی اشياء اور رہنے کے بندوبست کے علاوہ انہيں پڑھنا لکھنا سکھانا بھی لازمی ہے۔

https://p.dw.com/p/1GpN5
تصویر: Hassan Deveci

فرينکفرٹ ميں جاری اس کتب ميلے کے منتظم يرگن بوز نے بتايا، ’’ تعلیم کسی معاشرے اور جمہوری نظام کا حصہ بننے کے ليے بنيادی ضرورت ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’ہميں مہاجرين کے پاس خود جا کر، انہيں کتابيں اور پڑھنے لکھنے کی اشياء فراہم کرنی ہوں گی۔‘‘

انضمام کے ليے تعليم و تربيت کے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے، فرينکفرٹ کتب ميلے کے منتظمين اور جرمن بک ٹريڈ ايسوسی ايشن نے مہاجرين کے ليے ’بکس سے ويلکم‘ يا کتابيں خوش آمديد کہتی ہيں کے نام سے ايک خصوصی مہم شروع کر رکھی ہے۔ اس اسکيم کے تحت جرمنی بھر ميں کتابوں کی قريب چھ ہزار دکانيں صارفين سے مالی امداد اکھٹی کر رہی ہيں۔ جمع ہونے والی رقوم سے مہاجرين کے ليے پرائمری اسکول کی کتابوں، اساتذہ کے لے سامان اور لغت کے علاوہ ناول اور ادبی کتابوں کا انتظام بھی کيا جائے گا۔ ان کتابوں وغيرہ کو جرمنی کے مختلف حصوں ميں مہاجرين کے کيمپوں اور ديگر رہائش گاہوں ميں تقسيم کيا جائے گا۔

جرمن بک ٹريڈ ايسوسی ايشن کے سربراہ Alexander Skipis نے اس بارے ميں بات چيت کرتے ہوئے کہا، ’’ہماری صنعت اس تصور پر چلتی ہے کہ کتابوں کے بغير ايک آزاد معاشرے کا قيام ممکن نہيں۔‘‘ انہوں نے مزيد کہا کہ وہ کتابوں کی دستيابی کو فروغ دے کر معاشرے ميں اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہتے ہيں۔ Skipis کے مطابق قريب دو ہفتے قبل شروع ہونے والی ’کتابيں خوش آمديد کہتی ہيں‘ نامی اسکيم کافی اچھی چل رہی ہے اور لوگوں ميں اسے بہت پسند کيا جا رہا ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کيا کہ يہ ايک طويل المدتی منصوبہ ہے۔

Bildergalerie Frankfurter Buchmesse 2015 Hindi
تصویر: DW/Onkar Singh Janoti

جرمنی ميں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے سربراہ Aiman Mazyek نے کہا کہ جرمنی آنے والے مہاجرين کے انضام کے ليے ماضی کے مقابلے ميں موجودہ صورتحال کافی سازگار ہے۔ ان کے بقول سن 1950 کی دہائی ميں ترکی سے آنے والے مہاجرين ’مہمان ملازم‘ تھے جبکہ اب جرمنی آنے والے مہاجرين کی اکثريت اعلٰی تعليم يافتہ ہے۔ تعليم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ايک ماہر Wassilios Fthenakis جرمنی ميں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے سربراہ سے متفق ہيں۔ ان کا بھی ماننا ہے کہ مہاجرين جرمن معاشرے کو فروغ دينے ميں مدد فراہم کر سکتے ہيں۔

اگرچہ ناقدين اور اس حوالے سے سماجی اور معاشی اثرات پر کافی پر زور مخالفت جاری رکھے ہوئے ہيں، جرمن عوام نے اکثريتی طور پر مہاجرين کی بڑی تعداد ميں آمد کو خوش آمديد کيا ہے۔ ماہرين اس پر متفق ہيں کہ يورپ کی سب سے بڑی معيشت کو درپيش اوسط عمر ميں اضافے اور عمر رسيدہ افراد کی شرح ميں زيادتی کے سبب اضافی ملازمين ناگزير ہيں۔ اندازوں کے مطابق 2020ء تک جرمنی کو 1.8 ملين کواليفائڈ ورکرز کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جرمن شہر فرينکفرٹ ميں جاری کتب ميلہ عالمی سطح پر اپنی طرز کا سب سے بڑا ميلہ ہے۔ اس سال ميلے ميں 7,300 سے زائد افراد يا کمپنياں اپنی اشاعتوں کی نمائش کر رہے ہيں جبکہ قريب تين لاکھ افراد کی ميلے ميں شرکت متوقع ہے۔