1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کی گمنام لاشوں کو نام دینے کا کام

شمشیر حیدر17 اگست 2016

اطالوی دارالحکومت روم کے ایک پارک میں بیٹھے ہوئے موسیٰ نے اپنی بیوی یوردانوس کی تصویر زُوم کی اور اس کے چہرے کے تِل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’دیکھیں، اس نشان سے اس کی شناخت ہو سکتی ہے۔‘‘

https://p.dw.com/p/1JjuC
Griechenland Freiwillige Arbeit auf Lesbos
تصویر: DW/G. Harvey

اریٹیریا سے تعلق رکھنے والا چھبیس سالہ موسیٰ اپنی بیوی کے ساتھ یورپ کے سفر پر نکلا تھا۔ موسیٰ نے یوردانوس کو آخری مرتبہ اس سال چھبیس مئی کے روز اس وقت دیکھا تھا جب وہ دونوں لیبیا کے ساحلوں سے بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی کے سفر پر نکلے تھے۔ یہ دو مختلف کشتیوں میں سوار تھے۔ دونوں کشتیوں کو حادثہ پیش آیا، موسیٰ کو تو بچا لیا گیا لیکن یوردانوس کا کچھ اتا پتا نہ چل سکا۔

جرمنی نے اس سال اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ دی؟

جرمنی میں مہاجرین سے متعلق نئے قوانین

اٹلی کے ایک کیمپ میں بیٹھے موسیٰ کو آج بھی اپنی بیوی کی تلاش ہے۔ ایسے ہی تارکین وطن کی مدد کرنے کے لیے بین الاقوامی کمیشن برائے گمشدہ افراد (آئی سی ایم پی) نامی ایک ادارہ بھی سرگرم ہے۔ ادارے کے پاس گم شدہ اور سمندر میں ڈوبنے والے مہاجرین کے کوائف جمع کرنے کی تمام سہولیات تو موجود ہیں لیکن اسے فنڈنگ کی کمی کا سامنا ہے۔

تارکین وطن کے بارے میں پانچ اہم حقائق

یہ ادارہ نہ صرف گمشدہ تارکین وطن اور مہاجرین کو ڈھونڈ کر ان کے اہل خانہ سے ملانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہونے والے پناہ گزینوں کی شناخت کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ہلاک شدگان کے ڈی این اے کے نمونوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔

گمشدہ مہاجرین کے اہل خانہ ان کی تلاش میں اکثر اٹلی اور یونان کا رخ کرتے ہیں۔ ڈی این اے نمونوں کا جائزہ لینے کے بعد کچھ کی شناخت ہو جاتی ہے تو کم از کم وہ لوگ اپنے پیاروں کی قبر بنا کر کچھ تسلی حاصل کر پاتے ہیں۔ لیکن یونان اور اٹلی کے قبرستانوں میں کئی قبریں ایسی ہیں جن پر مرنے والے کے نام کی جگہ ان محض ایک نمبر ہی درج ہوتا ہے۔

یورپ میں جاری مہاجرین کا بحران تیسرے سال میں داخل ہو چکا۔ سمندری راستوں میں ہلاک ہونے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن اب تک مہاجرین کی شناخت اور تلاش کے لیے یورپی سطح پر کوئی ڈیٹا بیس موجود نہیں ہے۔ اس صورت حال میں یہ بیڑا بھی اٹلی اور یونان اپنے طور پر ہی اٹھا رکھا ہے۔

یونانی پولیس میں فرانزک سائنس کے محکمے کے ڈائریکٹر پینیلوپے مینیاتی کا کہنا ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں یونانیوں نے بھی بڑی تعداد میں ہجرت کی تھی۔ مینیاتی کے مطابق، ’’اس وقت کئی یونانی لاپتا ہو گئے تھے۔ لوگ سوچا کرتے تھے کہ آخر گم شدہ تارکین وطن کے ساتھ کیا بیتی ہو گی۔‘‘

موسیٰ کو بھی ایسا ہی مسئلہ درپیش ہے۔ وقت کے ساتھ اس کی یہ امید تو دم توڑتی جا رہی ہے کہ اس کی بیوی بھی بچا لی گئی ہو گی اور وہ کسی کیمپ میں بیٹھی اس کی راہ تک رہی ہو گی۔ لیکن وہ چاہتا ہے کہ اگر وہ مر بھی چکی ہے تو کم از کم اس کی قبر کے بارے میں ہی کچھ معلومات مل جائیں۔ موسیٰ اور یوردانوس اپنے بیٹے کو اریٹیریا میں چھوڑ آئے تھے۔ موسیٰ کا کہنا تھا، ’’میرے بیٹے نے پوچھا کہ اس کی ماں کہاں ہے تو کم از کم میں اسے یہ تو کہہ سکوں کہ وہ مر گئی اور اسے دفن کر دیا گیا۔‘‘

’تارکین وطن کو اٹلی سے بھی ملک بدر کر دیا جائے‘

ہمیں واپس آنے دو! پاکستانی تارکین وطن

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید