1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار تنازعہ: ہزاروں مہاجرین پناہ کے لیے چین پہنچ گئے

صائمہ حیدر
13 مارچ 2017

میانمار میں ایک باغی مسلح گروہ اور حکومتی دستوں کے درمیان لڑائی چھڑنے کے بعد سے سرحد کے اُس پار جنوب مغربی  چین کے صوبے یونان میں ایک مہاجر قائم کیمپ قائم ہوا ہے جو روز بروز پھیلتا چلا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2Z6eE
Bildergalerie China Myanmar Konflikt
چینی حکام کے مطابق میانمار کی ریاست شان میں کوکانگ کے علاقے سے قریب چینی شہر بیس ہزار سے زائد افراد کو پناہ فراہم کر رہا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کیمپ میں موجود امدادی کارکنوں اور ہجرت کر کے آنے والے بے گھر افراد نے ایسے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ اس بار شروع ہونے والا  تنازعہ سن 2015 کے اوائل میں چین کی سرحد کے ساتھ میانمار کے شمال مشرقی علاقےکوکانگ  میں اٹھنے والے تنازعے سے زیادہ پر تشدد اور طویل ثابت ہو سکتا ہے۔

کوکانگ سے آنے والے ہان نسل چینی مہاجرین کی اکثریت والے اس کیمپ میں امدادی کام کی نگرانی کرنے والے ایک مینیجر نے روئٹرز کو بتایا،’’کیمپ میں آنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ہم تب تک اِن کی دیکھ بھال کریں گے جب تک یہ واپس جانے کا فیصلہ نہیں کرتے۔‘‘

 چینی حکام کے اندازے کے مطابق میانمار کی ریاست شان میں کوکانگ کے علاقے سے قریب یہ سرحدی چینی شہر بیس ہزار سے زائد افراد کو پناہ فراہم کر رہا ہے۔ میانمار میں شروع ہونے والا حالیہ تنازعہ ملکی رہنما آنگ سان سوچی کی اُن کوششوں کے لیے ایک دھچکا ہے جو وہ میانمار کی نسلی اقلیتوں کے ساتھ جامع امن  معاہدے کے لیے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کوکانگ کے چین سے بہت قریبی تعلقات ہیں۔ یہاں کے رہنے والوں کی اکثریت چینی نسل سے ہے  جو ایک طرح کی چینی بولی بولتے ہیں اور چینی کرنسی یوآن استعمال کرتے ہیں۔

میانمار جسے پہلے برما کہا جاتا تھا، ایک کثیر القومی ریاست ہے۔ اس ملک میں ایک سو تیس سے زائد نسلی گروپ بھی موجود ہیں۔ سن انیس سو اڑتالیس میں آزادی کے بعد سے اس ملک کو اپنی سرحدوں پر مختلف تنازعات کا سامنا ہے۔ کوکانگ، کیرن، کاشین، شان اور مون میانمار کے اہم نسلی اقلیتی گروپ ہیں۔ ان سب باغی گروپوں نے اپنے مسلح لشکر بنا رکھے ہیں، جو کئی دہائیوں سے برما کی مرکزی حکومت کے خلاف مسلح کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔