1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار: تِن جو کے بطور صدر انتخاب سے ایک نئے باب کا آغاز

امجد علی15 مارچ 2016

میانمار میں 69 سالہ تِن جو کو، جنہیں نوبل امن انعام یافتہ آنگ سان سُوچی کا انتہائی با اعتماد ساتھی سمجھا جاتا ہے، ملکی صدرمنتخب کر لیا گیا ہے۔ تِن جو نے کہا ہے کہ اُن کی کامیابی دراصل اُن کی ’بہن‘ سُوچی کی کامیابی ہے۔

https://p.dw.com/p/1IDEB
Myanmar Htin Kyaw Staatspräsident mit Aung San Suu Kyi Parteivorsitzende
69 سالہ تِن جو نوبل امن انعام یافتہ آنگ سان سُوچی کے انتہائی با اعتماد ساتھی تصور کیے جاتے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Shine Oo

اس طرح پچاس سال سے زیادہ عرصے کے بعد اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں پہلی بار ایک غیر فوجی شخصیت نے صدارت کا منصب سنبھالا ہے۔

دارالحکومت نیپیداو میں صدر کے انتخاب کے لیے ووٹوں کی گنتی ہاتھوں سے کی گئی اور اس میں کافی وقت صرف ہوا۔ گنتی کے بعد اراکینِ پارلیمان کی تالیوں کی گونج میں تِن جو کے صدر منتخب ہو جانے کا اعلان کیا گیا۔ انہیں 652 میں سے 360 ووٹ حاصل ہوئے۔ صدر کے عہدے کے لیے جو دوسرے دو امیدوار میدان میں تھے، وہ اب مشترکہ طور پر نائب صدر کی ذمے داریاں نبھائیں گے۔

میانمار کو کئی عشروں تک باقی دنیا سے الگ تھلگ ایک ایسے ملک کی حیثیت حاصل رہی ہے، جہاں کی فوج عوام کے جمہوری حقوق پامال کرتی رہی ہے تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے یہ ملک بڑی تیزی سے جمہوریت کے راستے پر گامزن ہے۔

گزشتہ نومبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں 70 سالہ سوچی کی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کو اَسّی فیصد نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ اس کامیابی کے نتیجے میں اس سیاسی جماعت کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں غالب حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔

میانمار میں جاری جمہوری عمل کے باوجود فوج کو اس ملک میں بدستور ایک طاقتور عنصر کی حیثیت حاصل ہے اور فوج نے اپنے بنائے ہوئے ملکی آئین کی اُس شق کو تبدیل کرنے سے انکار کر دیا تھا، جو سُوچی کو اعلیٰ ترین منصب کے لیے منتخب ہونے سے روکتی ہے۔ اس شِق کے مطابق سُوچی خود میانمار کی صدر اس لیے نہیں بن سکتیں کیوں کہ ان کے بیٹے غیرملکی شہریت رکھتے ہیں۔

سُوچی کی جانب سے صدر کے عہدے کے لیے تِن جو کے انتخاب پر کہا یہ جا رہا ہے کہ سُوچی کو تِن جو کی وفاداری پر مکمل یقین ہے اور تِن جو کے پیچھے اصل اختیارات کی مالک غالباً سُوچی ہی رہیں گی۔ تِن جو نے بھی صدر بننے کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا:’’یہ بہن آنگ سان سُوچی ہی کی کامیابی ہے۔ (اُن کا) شکریہ۔‘‘

Myanmar Parlament wählt neuen Präsidenten
میانمار میں جاری جمہوری عمل کے باوجود فوج کو اس ملک میں بدستور ایک طاقتور عنصر کی حیثیت حاصل ہےتصویر: Getty Images/AFP/R. Gacad

تِن جو اپنے صدارتی فرائض یکم اپریل کو سنبھالیں گے۔ تب تک گزشتہ پانچ سال سے صدر کے منصب پر فائز چلے آ رہے تھین سین ہی اپنی ذمے داریاں ادا کرتے رہیں گے۔ تھین سین نے جس طرح سے ان چند برسوں کے اندر اندر ایک مکمل طور پر فوجی حکومت کو جمہوری حکومت میں تبدیل کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے، اس پر انہیں پوری دنیا کی جانب سے خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔

آنے والے مہینوں میں خود سُوچی کیا کردار ادا کریں گی، یہ بات ابھی واضح نہیں ہے۔ اُنہیں نہ صرف ملک کو آزادی دلانے والے ہیرو کی بیٹی کی حیثیت حاصل ہے بلکہ وہ اُس عشروں طویل جدوجہد کا بھی مرکزی کردار رہی ہیں، جس کا مقصد ملک میں فوجی حکومت کی جگہ جمہوریت متعارف کروانا تھا۔

ملکی کابینہ کا اعلان رواں ماہ کے اواخر تک متوقع ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کابینہ میں تمام سیاسی دھڑوں سے تعلق رکھنےوالے سیاستدان شامل ہوں گے کیونکہ سُوچی ملک میں قومی مفاہمت کے عمل کو فروغ دینا چاہتی ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید