1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار: فوج مخالف تحریک کا ایک سال

27 ستمبر 2008

پچھلے برس میانمار کی فوجی خنتا کےخلاف جمہوریت پسند سیاسی جماعتوں اور بدھ بھِکشوئوں نے جو زبردست مظاہرے شروع کیے تھے ان کو ایک برس ہوگیا ہے۔ ان مظاہروں میں لاکھوں افراد نے شرکت کی تھی۔

https://p.dw.com/p/FQFO
مینماز میں جمہریت کی علامت آنگ سن سوچیتصویر: AP

میانمار کی سخت گیر فوجی حکومت نے نہ صرف سینکڑوں کی تعداد میں مظاہرین کو گرفتار کیا تھا بلکہ ان مظاہروں کے دوران اچھی خاصی تعداد میں ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔ اس برس ان مظاہروں کے ایک سال پورے ہونے پر علامتی مظاہروں کی توقع کی جا رہی تھی تاہم حکومت نے رات گئے ہی نوبیل انعام یافتہ جمہوریت پسند مقیّد رہنما آنگ سن سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے مرکزی دفتر سے متعدد پارٹی رہنمائوں کو گرفتار کرلیا۔ یہ رہنما اپنی جماعت کی بیسویں سالگرہ منانے کے لیے جمع ہوئے تھے۔دوسری جانب پولیس نے آونگ سن سوچی کے گھر کے باہر بھی سخت پہرہ لگایا ہوا ہے ۔

کسی بڑے مظاہرے کی تو اطلاعات سامنے نہیں آئی ہیں تاہم سو کے قریب بھِکشوئوں نے مغربی میانمار میں ایک پر امن مظاہرہ کیا اور پچھلے برس ہونے والی فوج مخالف تحریک کو یاد کیا۔ یاد رہے کے ان مظاہروں میں بھکشوئوں نے ایک بڑا کردار ادا کیا تھا اور متعدد بھکشو اس میں ہلاک بھی ہوئے تھے۔ بعض حلقوں کے مطابق ایک بڑی تعداد میںبھکشو اور سیاسی کارکن ابھی تک مینمار کی فوجی خنتا کی تحویل میں ہیں۔

انسانی حقوی کی تنظیمیں اور بین الاقوامی برادری مینمار کی حکومت پر زور ڈالتی رہی ہیں کہ وہ آنگ سن سوچی کو رہا کرے اور مینمار کا دروازہ جمہوریت کے لیے کھولے۔ میانمار حکومت تا حال ملک پر اپنی آہنی گرفت برقرار رکھے ہوئے ہے۔