1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار میں ہلاک شدگان کی تعداد تقریبا 77ہزار

16 مئی 2008

سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ لاپتہ افراد کی تعداد تقریبا چھپن ہزار جبکہ زخمیوں کی تعدادبیس ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/E1LW
تصویر: AP

اقوام متحدہ کی بھر پورکوشش ہے کہ میانمارکےجنوبی ساحلی علاقوں میں نرگس سمندری طوفان سے تباہ حال متاثرین کی مد د کے لئے تیز ترین کاروئی کی جایئں۔ لیکن مون سون کے موسم میں شدید بارشیں اور خراب موسم ان کوششوں میں حائل ہونے کا کوئی موقع بھی ضائع نہیں کر رہا ہے۔

ینگون میں اقوام متحدہ کے ترجمان آئے ون نے خراب موسم میں امدادی کاروایئوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے ڈویچے ویلے کے نمایندے کو بتایا کہ وہ زیریں علاقوں کے بارے میں بہت فکر مند ہیں، کیونکہ ان علاقوں تک رسائی ایک مشکل کام ہے۔ اس تباہی سے برباد ہونے والے ان علاقوں میں نہ صرف رسائی مشکل ہے بلکہ کمیونیکشن بھی مشکل ہے۔ سڑکیں ٹوٹیں ہوئی ہیں، پورے کے پورے پل ، پانی کے ساتھ بہہ گئےہیں۔ اس صورتحال میں ، وہاں تک امدادی سامان کی ترسیل کے لئےانہیں صرف چھوٹی گاڑیاں ہی استعمال کر نا پر رہیں ہیں جو ایک چکر پانچ سے چھ ٹن سے زیادہ سامان لوڈ نہیں کر سکتیں ۔

Myanmar Preise steigen auf das Doppelte
تصویر: AP

انہوں نے کہاکہ اگرچہ ابھی بھی امداد موصول ہو رہی ہے لیکن اس وقت اقوام متحدہ کے لئے سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ اس امداد کو ، فوری طور، شدید متاث ہ علاقوں تک کیسے پہنچایا جائے۔

میانمار کے متاثرہ علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں مقامی رضاکاروں کے ہمراہ ، امدادی کاموں کو ممکن بنانا ایک بہت بڑا مسلہ بنا ہوا ہے۔ روزانہ ہی امدادی پروازیں ینگون آرہی ہیں۔ ان امدادی اشیا میں خیمے، پینے کا صاف پانی، ادویات اور خوارک وغیرہ شامل ہیں۔ سب سہولتوں کے باوجود بھی متاثرہ زیریں علاقوں یعنی irrawaddy ڈیلٹا تک امداد کو بہم پہنچاناایک مسلہ بنا ہوا ہے اور قیمتی وقت گزرتا جا رہا ہے۔

میانمارمیں اقوام متحدہ معلومات عامہ کے ترجمان آئے ون کا کہنا ہےکہ جب بھی کوئی امدادی طیارہ ینگون پہنچتا ہے تو،فوری طورپرامدادی سامان کو متاثرہ علاقوں تک پہنچانےکاعمل شروع کردیا جاتا ہے۔ سڑکوں کی صورتحال اورگاڑیوں کی دستیابی کو دیکھتے ہوئے یہ سامان دو دن میں یا اس سے بھی کم وقت میں مطلوبہ جگہوں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔

لیکن ابھی بھی کئی علاقےایسے ہیں جہاں تک رسائی ممکن نہیں ہوئی۔ اس لئے ان علاقوں میں بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔

Deutschland Hilfe für Birma Flughafen Berlin Schönefeld
تصویر: AP

اقوام متحدہ کےمطابق ابھی بھی تقریبا دو ملین تباہ حال افراد فوری مدد کے طلبگار ہیں۔ دن بدن ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔

اگرچہ ینگون فوجی حکومت نے بین الاقوامی امداد قبول کر لی ہے تاہم ابھی بھی امدادی کارکنوں کو ویز دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔

ڈویچے ویلے کے نمائیندے کے مطابق جو امدادی کارکن اور صحافی، سیاحتی ویزا حاصل کر کے میانمار داخل ہو ئے ہیں وہ نرگس سمندری طوفان سے شدید ترین متاثرہ علاقوں میں نہیں جا سکتے۔

آئے ون جو خود بھی میانمار کا باشندہ ہے ، فوجی حکومت کے اس قدم کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت مہارتوں کی اشد ضرورت ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ صورتحال میں میانمار کو بین الاقوامی امدادی کارکنان کی ضرورت ہےجو یہاں آیئں اور اس بری صورتحال میں اپنی مہارتوں کے استعمال سے ان لوگوں کی مدد کریں جو بھی تک بے یارو مدد گار ہیں۔

آئے ون نے کہا کہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ میانمار کی فوجی حکومت اس کڑے وقت میں اپنی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ متاثرین کی مدد کی جائے اور فوج اقوام متحدہ کے امدادی کاموں میں بھی کوئی رخنہ نہیں ڈال رہی ہے۔ لیکن اتنی بڑی تباہی میں موجودہ حکومت کے پاس مہارت نہیں ہے کہ وہ اکیلی ہی اس کا سامنا کر سکے۔