1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار میں ’8888 مزاحمت‘، اکیس برس ہو گئے

8 اگست 2011

جنوب مشرقی ایشیائی ملک میانمار میں حزب اختلاف کی نوبل امن انعام یافتہ اپوزیشن رہنما آنگ سان سوچی نے ملک میں فوج کی طرف سے نافذ کیے گئے آئین کو ایک بار پھر مسترد کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/12D7F
آنگ سان سوچیتصویر: AP

یہ بات انہوں نے ینگون میں ایک بدھ راہب خانے میں 8 اگست 1988ء کی جمہوریت پسند مزاحمت کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کے بعد پیر کو کہی۔ سوچی نے کہا کہ میانمار کے عوام آج بھی 2008ء کےآئین کو قبول نہیں کرتے۔ 8 اگست 1988ء کو شروع ہونے والی اس جمہوری تحریک کو میانمار میں عام طور پر’8888 مزاحمت‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

سن 2008 میں ملک کی فوجی انتظامیہ کی طرف سے نافذ کردہ آئین کے تحت فوج کا کسی بھی جمہوری طور پر منتخب حکومت پر کنٹرول مضبوط کر دیا گیا تھا۔ تب پارلیمان میں ایک چوتھائی سیٹیں فوج کےنامزد کردہ ارکان کے لیے مختص کر دی گئی تھیں۔ یہ نامزد اراکین پارلیمان اپنی تعداد کے حوالے سے اتنے ہیں کہ وہ کسی بھی قانون سازی کے عمل کو ویٹو کر سکتے ہیں۔

سن 1988ء میں بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں نے سابق فوجی آمر نی ون کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ تاہم یہ احتجاجی مظاہرے وہاں فوج کے اقتدار پر قبضے کو ختم نہیں کرا سکے تھے۔ پھر ٹھیک ایک ماہ اور ایک دن کے بعد 9 ستمبر1988ء کو عوام کی جمہوری مزاحمتی تحریک کو کچلنے کے لیے فوج کی طرف سے خونریز کارروائی کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں اندازہﹰ تین ہزار تک شہری مارے گئے تھے۔ جمہوریت پسندوں کے خلاف اس خونریز کارروائی کے بعد میانمار کو ملنے والی مغربی امداد بند ہو جانے کی وجہ سے مجبوراﹰ فوج کو ملک میں نئے الیکشن کرانا پڑے تھے اور 1990ء میں سوچی کی قومی لیگ برائے جمہوریت نے بھاری اکثریت سے یہ الیکشن جیت لیے تھے۔ تاہم تب بھی اقتدار ان کے حوالے نہیں کیا گیا تھا۔

Myanmar Parlament Birma
میانمار پر فوجی تسلط ہنوز برقرار ہےتصویر: AP

سوچی میانمار کی آزادی کے لیڈر آنگ سان کی بیٹی ہیں۔ وہ گزشتہ 21 برسوں میں سے کم از کم 15 سال اپنے گھر پر نظربند رہی ہیں۔ اس نظر بندی سے آخری مرتبہ ان کو 13 نومبر کو رہا کیا گیا تھا۔ ان کی رہائی گزشتہ برس 7 نومبر کو فوج کی حامی ایک نئی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد عمل میں آئی تھی۔

ان انتخابات سے قبل خاص طرح کی قانون سازی کر کے سوچی اور ان کی پارٹی کو اس انتخابی عمل میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا۔ اسی لیے کئی مغربی جمہوری حکومتوں نے ان انتخابات کو دھوکہ اور ڈھونگ قرار دیا تھا۔

سوچی اپنی رہائی کے بعد سے اب تک میانمار کے کئی دیہی علاقوں کے سیاسی دورے کر چکی ہیں۔ انہی دوروں کی وجہ سے انہیں اب ایسی دھمکیاں بھی ملنا شروع ہو چکی ہیں، جن کا ایک پہلو نئی فوج نواز حکومت کا سیاسی طور پر ان سے خوفزدہ ہونا بھی ہے۔

میانمار میں ذرائع ابلاغ نے خبردار کیا ہے کہ مئی 2003 کا وہ واقعہ ممکنہ طور پر دوبارہ دیکھنے میں آ سکتا ہے، جس میں سوچی اور ان کے حامیوں پر ایک سیاسی دورے کے دوران وسطی میانمار میں فوج کے حامی مسلح افراد نے حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں 19 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ خود سوچی بھی معمولی زخمی ہو گئی تھیں۔

آج پیر کو ینگون میں ایک بار پھر فوجی حکمرانوں کا نافذ کردہ ملکی آئین مسترد کر دینے والی اپوزیشن کی نوبل امن انعام یافتہ اس رہنما کو میانمار میں وہاں عشروں سے جاری فوج کے اقتدار کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

رپورٹ: سائرہ ذوالفقار

ادارت: مقبول ملک