1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

290911 Suu Kyi Gandhi

4 اکتوبر 2011

میانمار کی اپوزیشن رہنما آنگ سان سُوچی اُس شخص کی بیٹی ہیں، جسے جدید برما کا معمار کہا جاتا ہے۔ مہاتما گاندھی کے افکار سے متاثر سُوچی کی اپنے وطن میں جمہوریت کے لیے جدوجہد شروع سے ہی عدم تشدد سے عبارت رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/12lXX
تصویر: AP

میانمار میں جرنیلوں اور فوج نے سُوچی کی  جدوجہد کو اکثر بری طرح سے کچل دیا ہے۔ سُوچی نے اپنی زندگی کے پندرہ برس نظر بندی میں گزارے ہیں۔ تاہم قیدو بند کی ان صعوبتوں سے گھبرانے کی بجائے سُوچی پختگی کے ساتھ مہاتما گاندھی کے اَفکار پر جمی رہی ہیں۔

یہ 26 اگست 1988ء کی بات ہے، برما کی تحریک جمہوریت کے حامیوں کا جلوس رنگون کی جانب رواں دواں تھا۔ فوجی حکومت کے انتباہات کے باوجود اِس جلوس کے شرکاء اپنے اُس وقت کے دارالحکومت میں جا کر مظاہرہ کرنا چاہتے تھے اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا چاہتے تھے۔ فوجیوں نے اس جلوس کو راستے ہی میں روک لیا، موت کا سا سناٹا چھا گیا۔ ذرا سی بھی حرکت کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے تھے۔

آنگ سان سُوچی کا شمار دُنیا کی اُن نامور شخصیات میں ہوتا ہے، جو گاندھی کے افکار سے متاثر ہوئیں
آنگ سان سُوچی کا شمار دُنیا کی اُن نامور شخصیات میں ہوتا ہے، جو گاندھی کے افکار سے متاثر ہوئیںتصویر: picture-alliance/dpa/AP/DW

ایسے میں ایک نوعمر لڑکا آگے بڑھا، اُس نے اپنی شرٹ پھاڑ دی اور نہتا فوجیوں کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اُس نے کہا:’’چلاؤ گولی، اگر تم میں ہمت ہے تو!‘‘ یہ وہ لمحہ تھا، جب فوجیوں کے افسرِ اعلیٰ نے اُنہیں اپنی بندوقیں نیچی کر لینے کا حکم دیا اور کہا:’’کیا ہم اتنے ہی بے شرم ہیں کہ نوعمر لڑکوں کو گولیوں سے اڑا دیں؟‘‘

پھر یہ ہوا کہ تحریک جمہوریت کی خاتون قائد آنگ سان سُوچی بھی اُس نوعمر لڑکے کے شانہ بشانہ آن کھڑی ہوئی۔ بالآخر فوجی راستے سے ہَٹ گئے۔ یہ مظاہرین رنگون پہنچے اور سُوچی نے پہلی مرتبہ نصف ملین انسانوں کے ایک مجمعے سے خطاب کیا۔

گیارہ سال بعد، جب اُسے دوبارہ اٹھارہ ماہ کی سزائے قید سنائی گئی تو سُوچی نے بتایا کہ وہ اپنے وطن میں جمہوریت کے لیے عدم تشدد کے فلسفے پر مبنی راستے پر، جو طویل اور صبر آزما بھی ہے، آخر کیوں چل رہی ہیں۔ انہوں نے کہا تھا:’’انسان کئی راستے اختیار کرتا ہوا اپنی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ اِس کا مطلب لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسان اپنی اصل منزل کی بجائے بالکل ہی کہیں اور جا پہنچے کیونکہ انسان نے اپنی منزل کے راستے پر چلتے چلتے اپنی منزل کو ہی تباہ کر ڈالا ہو۔‘‘

سُوچی کی پرورش مہاتما گاندھی کے دیس میں ہوئی۔ گاندھی ہی کی طرح وہ بھی اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ گئیں۔ گاندھی ہی کی طرح آنگ سان سُوچی کو بھی سیاسی حالات نے سیاست میں حصہ لینے پر مجبور کر دیا ورنہ یہ کوئی ایسا شعبہ نہیں تھا، جس کا وہ بچپن سے خواب دیکھتی چلی آئی ہوں۔ اُن کے والد آؤنگ سان برطانیہ سے اپنے وطن کو آزاد کروانے کے لیے جدوجہد کرتے رہے جبکہ والدہ بھارت میں برما کی پہلی سفیر تھیں۔

سُوچی کہتی ہیں کہ گاندھی کی تحریروں کی وساطت سے ہی اُنہیں پتہ چلا کہ عدم تشدد کا فلسفہ آخر ہے کیا اور پھر اُنہوں نے اِسی راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا۔

میانمار کی اپوزیشن رہنما آنگ سان سُوچی
میانمار کی اپوزیشن رہنما آنگ سان سُوچیتصویر: DW/AP

امریکہ کے  پیری اوبرائن نے ’گاندھی کے بعد:عدم تشدد کی مزاحمت کے ایک سو سال‘ کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف کی ہے۔ اوبرائن کہتے ہیں:’’میرے خیال میں سُوچی کی خاص بات یہ ہے کہ اُنہیں اب کوئی خوف نہیں رہا اور یہ چیز سیاست میں بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ بے باکی اُن کے روزمرہ معمولات میں بھی نظر آتی ہے اور اُن کے فیصلوں میں بھی۔ ہم اس سے یہ سیکھ سکتے ہیں کہ خوف سے آزاد ہو کر ہی ہم ایسی تحریکوں کا حصہ بن سکتے ہیں، جو بالآخر ہماری زندگیاں تبدیل کر سکتی ہیں۔‘‘

ناقدین کہتے ہیں کہ سُوچی کی اب تک کی جدوجہد بے ثمر ثابت ہوئی ہے تاہم نئی دہلی میں قائم گاندھی پِیس فاؤنڈیشن کے رمیش شرما کے خیال میں کامیابی کا کردار محض ثانوی ہوتا ہے:’’لوگ ہمیشہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کوئی کامیاب ہوا یا ناکام حالانکہ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اہم بات یہ ہے کہ سُوچی نے دُنیا بھر کی توجہ اپنے وطن کے حالات کی جانب مبذول کروائی ہے۔‘‘

مہاتما گاندھی ہوں، نیلسن منڈیلا یا پھر آنگ سان سُوچی، اِن لوگوں کے لیے راستہ ہی اُن کی منزل ہوتا ہے۔ اگرچہ سُوچی کا مستقبل بھی غیر یقینی ہے لیکن لگتا یہی ہے کہ وہ  بھی اس راستے کو کبھی نہیں چھوڑیں گی۔

رپورٹ: ایشا بھاٹیہ / امجد علی

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید