1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

”میرا ایران “، نوبیل انعام یافتہ شیریں عبادی کی آپ بیتی

24 اپریل 2006

”میرا ایران“: یہ نام ہے اُس آپ بیتی کا، جس میں ایران کی حقوقِ انسانی کی علمبردار نامور شخصیت شیریںعِبادی نے اپنی سن 2003ء تک کی زندگی کے حالات و واقعات کا احاطہ کیا ہے۔ یہ وہ سال ہے، جب تہران کی اِس وکیل کو پہلی مسلمان خاتون کے طور پر امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔ حال ہی میں اِس کتاب کے جرمن ترجمے کی تعارُفی تقریب جرمن دارالحکومت برلن میں منعقد ہوئی۔

https://p.dw.com/p/DYLj
تصویر: AP

برلن کی تقریب میں کیمروں کی چکا چوند شیریں عبادی کے لئے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ نوبیل انعام ملنے کے بعد سے وہ اِس کی عادی ہو چکی ہیں۔ کتاب کے محدود صفحات 59 سالہ شیریں عِبادی کی ہنگامہ خیز زندگی کو پوری طرح سے بیان کرنے سے یقیناً قاصر ہیں۔

ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلے وہ نہ صرف پہلی خاتون جج بنی تھیں بلکہ تہران کی شہری عدالت کی سربراہ بھی۔ پھر وہ اِن عہدوں سے محروم ہو گئیں، محض اِس لئے کہ وہ ایک خاتون تھیں۔ اِس کے بعد سے وہ وکیل کے طور پر سیاسی قیدیوں کے مقدمے لڑ رہی ہیں۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور مساوی حقوق کے لئے اپنی جدوجہد کی وجہ سے ایرانی حکومت کے ساتھ اُن کا تنازعہ بھی پیدا ہوا اور اُنہیں جیل بھی جانا پڑا۔ لیکن برلن کی تقریب میں عبادی نے کہا کہ اِن تمام تر باتوں کے باوجود یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ ایران چھوڑ دیں۔

وہ کہتی ہیں: ”اگر انسان اپنے راستے کو درست سمجھتا ہو تو اُس میں یہ قوت بھی آ جاتی ہے کہ وہ پورے عزم کے ساتھ اُس پر چلتا جائے۔ میں مسلمان ہوں اور خدا پر یقین رکھتی ہوں، یہ چیز مجھے میرے کام کے سلسلے میں طاقت دیتی ہے۔ میں ایک ایرانی ہوں اور ایران ہی میں رہوں گی۔ میں اُمید کرتی ہوں کہ مجھے موت بھی ایران ہی میں آئے گی۔“

شیریں عبادی اپنی مادری زبان فارسی میں بات کرتی ہیں اور ہر لفظ تول تول کر بولتی ہیں۔ کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے، گویا وہ غلط فہمی پیدا کرنے والے بیانات سے بچنا چاہتی ہوں۔ ایران کی سیاسی صورت حال پر کوئی تبصرہ وہ محض پوچھے جانے پر ہی کرتی ہیں۔ جیسے ایک صحافی نے پوچھا کہ نئے ایرانی صدر احمدی نژاد کے دور میں کیا کچھ بدلا ہے؟ جواب میں عبادی نے محض یہ کہا کہ اپنی حقوقِ انسانی کی تنظیم کی رجسٹریشن نہ وہ سابق صدر کے دَور میں کروا سکی تھیں اور نہ ہی نئے صدر کے دور میں۔

ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا : ”ایرانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ایٹمی توانائی کا پر امن استعمال اُس کا نصب العین ہے۔ اب آیا یہ دعویٰ درست ہے؟ میں کبھی بھی حکومت میں شامل نہیں رہی اور اِسی لئے نہیں جانتی کہ بند دروازوں کے پیچھے کیا فیصلے ہوتے ہیں۔ لیکن ایک عام شہری اور حقوقِ انسانی کی علمبردار کے طور پر میرا ایک اپنا نقطہ نظر ہے۔ اور وہ یہ کہ اگر ہم ایران میں جمہوریت کو مزید فروغ دیتے ہیں تو اِس مسئلے پر بھی قابو پا لیا جائے گا۔“

امریکی حکومت کے ذکر پر شیریں عبادی کی آواز جوش میں بلند ہوتی گئی اور اُنہوں نے بتایا کہ کیسے اپنے امریکہ کے حالیہ سفر کے دوران اُنہوں نے دیکھا کہ ذرائع ابلاغ عوام کو ایران کے خلاف جنگ کے لئے تیار کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ایران کے خلاف طاقت کے استعمال سے تہران حکومت کو ایرانی اپوزیشن کے خلاف اور زیادہ سخت اقدامات کا بہانہ مل جائیگا۔

وہ کہتی ہیں : ” اُس تمام تر تنقید کے باوجود، جس کا نشانہ ہم ایرانی حکومت کو بناتے ہیں، ہم اِس بات سے ہر گز متفق نہیں ہیں کہ ایک بھی امریکی فوجی ایرانی سرزمین پر قدم رکھے۔“ شیریں عبادی نے کہا کہ امریکہ اور ایران کو آپس میں بات کرنی چاہیے اور تنازعے کا کوئی پرامن حل نکالنا چاہیے۔