1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’میرا خاندان مجھے قتل کر دے گا‘، سعودی لڑکی

شمشیر حیدر AFP/AP
16 اپریل 2017

دینا علی جبری شادی سے بچنے کے لیے سعودی عرب سے بھاگ کر آسٹریلیا کے سفر پر روانہ تھی، جہاں وہ سیاسی پناہ حاصل کرنا چاہتی تھی۔ تاہم فلپائن میں حکام نے اسے روک لیا اور اسے زبردستی واپس سعودی عرب بھیج دیا گیا۔

https://p.dw.com/p/2bK3l
Follow the Hashtag - Stop Enslaving Saudi Women: Protesting against male guardianship
تصویر: DW

سعودی عرب کی شہری دینا علی نامی اُس سعودی شہری خاتون  کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی جس میں وہ واپس سعودی عرب بھیجے جانے کی صورت میں اپنے اہل خانہ کے ہاتھوں قتل کر دیے جانے کے خدشے کا اظہار کر رہی ہیں۔  ہیومن رائٹس واچ نے منیلا ایئر پورٹ پر موجود ایک کینیڈین عینی شاہد کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایئر پورٹ حکام نے اس چوبیس سالہ خاتون کو سڈنی کی جانب روانہ فلائٹ پر سوار ہونے سے روک دیا۔

منیلا ایئر پورٹ پر موجود کینیڈین عینی شاہد کا کہنا تھا کہ سڈنی جانے والی فلائٹ میں سوار ہونے سے پہلے ائیر پورٹ کے ٹرانزٹ ایریا میں حکام نے اس سعودی لڑکی  کا پاسپورٹ اور بورڈنگ پاس قبضے میں لے لیا۔ اس واقعے کے بعد وہاں موجود  اس کینیڈین خاتون نے دینا کو سوشل میڈیا پر جاری کرنے کے لیے ویڈیو بنانے میں مدد کی۔ جب کہ کئی دوسرے افراد نے بھی اس واقعے کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہو جانے والی ایک ویڈیو میں دینا کا کہنا تھا، ’’اگر میرے گھر والے آ گئے تو وہ مجھے قتل کر دیں گے۔ اگر میں واپس سعودی عرب گئی تو مجھے مار دیا جائے گا۔ پلیز میری مدد کریں۔‘‘

ایئرپورٹ پر روک دیے جانے کے بارے میں اس کا کہنا تھا، ’’مجھے یہاں جانوروں کی طرح رکھا گیا ہے۔ میں کچھ بھی نہیں کر پا رہی۔‘‘ رپورٹوں کے مطابق دینا علی کی بارہا التجا کے باجود اسے زبردستی واپس سعودی عرب روانہ کر دیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں اور سوشل میڈیا صارفین دینا علی کی زندگی بچانے کے لیے اپیلیں کر رہے ہیں۔ تاہم فلپائن میں سعودی سفارت خانے نے اس واقعے کو ایک ’خاندان کا معاملہ‘ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’خاتون کو اپنے وطن اس کے خاندان کے پاس پہنچا دیا گیا ہے۔‘