1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’میرکل کی مہاجر دوست پالیسی کی حقیقت کچھ اور ہے‘

شمشیر حیدر
5 مارچ 2017

عام تاثر ہے کہ ستمبر 2015ء میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجر دوست پالیسی اختیار کرتے ہوئے مہاجرین کے لیے ملکی سرحدیں کھول دینے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم ایک جرمن مصنف نے انکشاف کیا ہے کہ میرکل ایسا نہیں چاہتی تھیں۔

https://p.dw.com/p/2YfQU
Deutschland | Politischer Aschermittwoch  | Angela Merkel, CDU
تصویر: picture-alliance/dpa/dpa-Zentralbild/S. Sauer

جرمن صحافی اور مصنف روبن الیگزینڈر کی تازہ کتاب جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجرین سے متعلق پالیسی کے موضوع پر لکھی گئی ہے جو اگلے ہفتے شائع ہونے والی ہے۔ تاہم جرمن اخبار ’ویلٹ ام زونٹاگ‘ میں اس کتاب کے کچھ مندرجات آج شائع کیے گئے ہیں۔

شناخت چھپانے کی صورت میں مہاجرین کا موبائل بھی ضبط

جرمنی میں پناہ کی تمام درخواستوں پر فیصلے چند ماہ کے اندر

الیگزینڈر کے مطابق جرمن چانسلر انگیلا میرکل، ان کی کابینہ کے کچھ ارکان اور اہم ملکی سیاست دانوں نے ہفتہ 12 ستمبر 2015ء کے شام ایک ٹیلی فون کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس دوران چانسلر میرکل، چانسلر آفس کے وزیر پیٹر آلٹمائر، وفاقی وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر، سی ایس یو کے سربراہ ہورسٹ زیہوفر، ایس پی ڈی کے سربراہ زیگمار گابریئل اور اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ اشٹائن مائر نے کانفرنس کال میں حصہ لیا۔

ان تمام سیاست دانوں نے مشترکہ طور پر فیصلہ کیا کے اگلے ہی روز شام چھ بجے سے جرمن سرحدوں پر آزادانہ نقل و حرکت ختم کر کے چیکنگ کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔ علاوہ ازیں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ جرمنی کا رخ کرنے والے تمام مہاجرین کو ملکی سرحدوں ہی سے واپس لوٹا دیا جائے گا۔

جرمن صحافی نے اپنی تحقیق میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ جرمنی کی وفاقی پولیس کے اعلیٰ افسروں نے تحریری طور پر ہدایات جاری کی تھیں کہ قانونی سفری دستاویزات کے بغیر کسی بھی شخص کو جرمن حدود میں داخل نہ ہونے دیا جائے اور خاص طور پر یہ بھی حکم دیا گیا تھا کہ ایسے افراد کا داخلہ بھی روک دیا جائے جو جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرانے کے خواہش مند ہیں۔ اس مقصد کے لیے اتوار 13 ستمبر کے روز جرمنی بھر سے پولیس اہلکاروں کو ملکی سرحدوں پر پہنچنے کا حکم بھی دے دیا گیا تھا۔

جب ان احکامات پر عمل درآمد کیا جا رہا تھا تب جرمن حکام نے ان احکامات کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا جس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے چانسلر میرکل سے دوبارہ رابطہ کیا۔ میرکل نے اس بابت کوئی فیصلہ نہیں کیا لیکن اپنے وزیر کو یہ کہا کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ سرحدوں کی بندش غیر قانونی نہ ہو۔ علاوہ ازیں انہوں نے وزیر داخلہ سے یہ ضمانت بھی مانگی کہ عوامی سطح پر ایسی کوئی تصویر سامنے نہ آئے کہ حکومت ملکی فوج کے ذریعے مہاجرین کی جرمنی آمد روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ نے ریاستی حکام، جرمن پولیس کے افسروں اور اتحادی جماعتوں سے رابطے کیے۔ جرمن اخبار کی رپورٹ کے مطابق، ’’اگرچہ ایک روز قبل جرمن حکومت اور اس کے اتحادی تمام فیصلے کیے جا چکے تھے لیکن کسی یقین دہانی کے بغیر نہ ہی چانسلر میرکل اور نہ ہی وفاقی وزیر داخلہ ڈے میزیئر مہاجرین کو ملکی سرحدوں سے ہی لوٹانے کا حکم دینا چاہتے تھے۔‘‘ آخر کار حکومت نے ایک روز قبل جاری کیے گئے احکامات واپس لے لیے اور نئے احکامات جاری کیے جس میں لکھا گیا تھا کہ یورپی یونین سے تعلق نہ رکھنے والے افراد کو بھی جرمنی کی حدود میں داخلے کی اجازت دے دی جائے۔

دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں

جرمنی: طیارے آدھے خالی، مہاجرین کی ملک بدری میں مشکلات حائل