1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میزائل شکن منصوبہ روس کے دباؤ پر واپس نہیں لیا، اوباما

رپورٹ:ندیم گِل، ادارت:عابد حسین21 ستمبر 2009

امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ مشرقی یورپ کے لئے مجوزہ میزائل شکن منصوبہ روس کے دباؤ پر واپس نہیں لیا گیا۔ اوباما نے کہا کہ روس اس منصوبے کی مخالفت ‌ضرور کرتا رہا ہے تاہم یہ منصوبہ ماسکو کے خلاف نہیں رہا۔

https://p.dw.com/p/Jl7x
تصویر: AP
Barack Obama Gesicht Mimik
اوباما سابق صدر بش کے موقف کو درست قرار دیتے ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

امریکی صدر باراک اوباما نے اتوار کو ایک امریکی ٹیلی ویژن کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ میزائل شکن منصوبہ روس کے لئے خطرہ نہیں، اور وہ اس سے متعلق روسی حکام سے مذاکرات بھی نہیں کریں گے۔ اوباما کا اشارہ بدھ کو روسی صدر دیمتری میدودیف سے ہونے والی ملاقات کی جانب تھا۔ میدودیف رواں ہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے لئے امریکہ پہنچیں گے۔

میزائل شکن منصوبے کی منسوخی کے بعد بعض حلقوں نے امریکی صدر پر الزام عائد کیا تھا کہ ان کے اس اقدام کا مقصد روس کو خوش کرنا تھا۔ تاہم اوباما نے کہا کہ واشنگٹن کی دفاعی ترجیحات کا تعین روسی حکام کے ہاتھ میں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی انتظامیہ نے وہی کیا جو امریکی عوام، یورپ میں تعینات ان کے فوجیوں اور اتحادیوں کے حق میں بہتر ہے۔

باراک اوباما نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ پولینڈ اور چیک جمہوریہ کے لئے مجوزہ میزائل شکن منصوبہ واپس لیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے بجائے متبادل منصوبہ شروع کیا جائے گا، جس سے ایران کے قریب اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو نشانہ بنایا جا سکے گا۔ نیا سسٹم پہلے مرحلے میں بحری بیڑوں پر نصب کیا جائے گا۔ بعدازاں 2015ء سے یہ ٹیکنالوجی یورپی سرزمین پر منتقل کی جائے گی۔ بش انتظامیہ کے منصوبے کے تحت یہ عمل 2017ء میں مکمل ہونا طے پایا تھا۔ اس حوالے سے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ واشنگٹن حکومت میزائل شکن منصوبہ ختم نہیں کر رہی بلکہ وہ تو اسے بش انتظامیہ کے مقرر کردہ شیڈول سے بھی پہلے مکمل کرنے جا رہی ہے۔ کلنٹن کا خیال ہے کہ اوباما نے میزائل شکن منصوبے کی تبدیلی کی وجہ یہ بتائی کہ ایران کی جانب سے دُور مار میزائلوں کی تیاری کا منصوبہ سست روی کا شکار ہے۔

Hillary Clinton.jpg
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹنتصویر: AP

انہوں نے نے کہا، 'ماسکو حکام اگر اس منصوبے سے خائف تھے بھی، اور اب ایران کی جانب سے بیلاسٹک میزائلوں کے خطرے اور اس کے جوہری پروگرام کے بارے میں ہمارے ساتھ مل کر زیادہ مؤثر طریقے سے کام کرنا چاہتے ہیں، تو یہ پیش رفت ہمارے لئے ایک بونس ہے۔'

وائٹ ہاؤس کی جانب سے ان خبروں کی تردید کی جا چکی ہے، جن میں کہا گیا تھا کہ میزائل شکن منصوبے کو منسوخ کر کے واشنگٹن حکومت تہران کے متنازعہ جوہری منصوبے پر ماسکو کی حمایت کی خواہاں ہے۔

Jahresrückblick 2008 International März Medwedew als Präsident vereidigt
روسی صدر دیمتری میدویدیفتصویر: picture-alliance/ dpa

اُدھر خبررساں ادارے 'اے ایف پی' نے کہا ہے کہ خارجہ پالیسی کے ماہرین اس بات پر نظر رکھے ہوئے کہ آیا روسی حکام امریکہ کے اس فیصلے کے بعد کوئی ایسا اعلان کرتے ہیں، جس کا مقصد امریکہ کو فائدہ پہنچانا ہو۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل دونوں ریاستوں کے تعلقات میں سرد مہری رہی ہے۔

دوسری جانب روس نے اس امریکی اقدام کا خیرمقدم کیا تھا۔ روسی وزیراعظم ولادیمیرپوٹین نے اسے جرات مندانہ اقدام قرار دیا تھا۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ واشنگٹن حکومت اعلیٰ ٹیکنالوجی کی روس کو برآمدات پر سویت دَور کی پابندیاں ہٹانے اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں اس کی رکنیت کے لئے مزید اقدامات اٹھائے۔