1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’میں جاؤں گا، یہ پاکستان کی نہیں افغانستان کی کانفرنس ہے‘

امجد علی7 دسمبر 2015

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ افغانستان پر ہونے والی علاقائی کانفرنس میں شریک ہوں گے۔ اُن کی اس شرکت کو دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تناؤ میں کمی کی کوششوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HIff
Afghanistan Unabhängigkeitstag Präsident Ashraf Ghani
افغانستان کے صدر اشرف غنیتصویر: Reuters/O. Sobhani

آٹھ دسمبر سے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں ’دی ہارٹ آف ایشیا‘ کے نام سے افغانستان کے بارے میں ایک دو روزہ کانفرنس کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے اس نام سے کانفرنسوں کا انعقاد ترکی، قازقستان اور چین میں ہو چکا ہے۔

اسلام آباد میں مجوزہ کانفرنس کو افغانستان میں اُس امن عمل کی بحالی کی ایک بنیاد کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو اس سال جولائی میں منقطع ہو گیا تھا۔ تاہم افغان حکام اس کانفرنس کے حوالے سے محتاط طرزِ عمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اُن کا کہنا یہ ہے کہ ابھی بھی بہت سی رکاوٹیں باقی ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی نے اس سے پہلے تک اس کانفرنس میں اپنی شرکت کی تصدیق نہیں کی تھی۔ اب افغان دارالحکومت کابل میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے اُنہوں نے جہاں یہ بتایا کہ وہ اسلام آباد جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہیں یہ بھی کہا، ’یہ پاکستان کی کانفرنس نہیں ہے، یہ افغانستان کی کانفرنس ہے‘۔

حال ہی میں افغان طالبان کے قائد ملا اختر منصور کی طالبان کمانڈروں کے ساتھ فائرنگ کے ایک تبادلے میں ہلاکت کی رپورٹیں سامنے آئی تھیں، جو افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن بات چیت کے عمل کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہیں۔ ان رپورٹوں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اشرف غنی نے کہا کہ اس ہلاکت کے حوالے سے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔

افغانستان کی جانب سے پاکستان کے بارے میں ایک طویل عرصے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ کابل حکومت یہ الزام لگاتی ہے کہ افغانستان میں طالبان کی طرف سے کی جانے والی مزاحمت کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔ خود اشرف غنی اسی حوالے سے ان دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان چَودہ برسوں سے جاری ایک ’غیر اعلانیہ جنگ‘ کے الفاظ استعمال کر چکے ہیں۔

Mullah Muhammad Akhtar Mansoor
حال ہی میں افغان طالبان کے قائد ملا اختر منصور کی طالبان کمانڈروں کے ساتھ فائرنگ کے ایک تبادلے میں ہلاکت کی رپورٹیں سامنے آئی تھیںتصویر: picture-alliance/dpa/Afghan Taliban Militants/Handout

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق غنی نے اپنے حلیف ملک ریاست ہائے متحدہ امریکا کے دباؤ میں آ کر پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں تیز تر تو کی تھیں تاہم اس سال جولائی میں ان کوششوں کو کافی دھچکا لگا تھا، جب طالبان کے ساتھ امن مذاکرات منقطع ہو گئے تھے۔

اپنے تازہ بیان میں اشرف غنی نے کہا:’’ افغانستان اور پاکستان کے مابین امن ہونا لازمی ہے۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات دو نوعمروں کے باہمی تعلقات نہیں ہیں کہ ایک گھنٹے کے لیے تو آپ دوست رہیں اور اگلے ہی گھنٹے میں بات چیت بند کر دیں۔‘‘

اتوار کو پاکستان اور افغانستان کے لیے مقرر کردہ خصوصی امریکی مندوب رچرڈ اولسن نے بھی دونوں ملکوں کے درمیان اشتراکِ عمل پر زور دیا تھا:’’صدر غنی نے کاروبارِ مملکت سنبھالنے کے بعد سے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے جو کوششیں کی ہیں، ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ پاکستان اور افغانستان کے مابین اچھے سے اچھے تعلقات کی حوصلہ افزائی کی ہے، خاص طور پر اُس مفاہمتی عمل کے حوالے سے، جس کی باگ ڈور افغانوں کے ہاتھ میں ہے۔‘‘

Afghanistan Taliban
افغان حکام کے مطابق پاکستان طالبان کو اپنا آلہٴ کار بنا کر اُن کی مدد سے ملک میں شورش کو ہوا دے رہا ہے تاکہ بھارت افغانستان میں اپنی موجودگی کو مستحکم نہ کر سکےتصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer

روئٹرز کا کہنا ہے کہ دوسری جانب پاکستان اُس اثر و رسوخ کے حوالے سے شکوک و شبہات رکھتا ہے، جو اُس کے ہمسایہ ملک بھارت کو افغانستان میں حاصل ہے۔ افغان حکام کو شبہ ہے کہ پاکستان طالبان کو اپنا آلہٴ کار بنا کر اُن کی مدد سے ملک میں شورش کو ہوا دے رہا ہے تاکہ بھارت افغانستان میں اپنی موجودگی کو مستحکم نہ کر سکے۔ پاکستان ان الزامات کو رَد کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ وہ ایک مستحکم افغانستان کا خواہاں ہے۔ اسلام آباد منعقدہ کانفرنس میں بھارت بھی شریک ہو رہا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں