1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میں کتاب لکھوں گا، علی حیدر گیلانی

عاطف بلوچ19 مئی 2016

علی حیدر گیلانی کے مطابق ان کے اغوا کاروں کو علم تھا کہ نو مئی کو امریکی اور افغان فورسز انہیں بازیاب کرانے کی خاطر چھاپہ مار سکتی ہیں۔ انہوں نے اس ڈرامائی آپریشن کی تفصیلات سے میڈیا کو مطلع کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1IqLb
Afghanistan Ali Haider Gilani wurde befreit
علی حیدر گیلانی نے اپنی بازیابی کے اس ڈرامائی آپریشن کی تفصیلات سے میڈیا کو مطلع کر دیا ہےتصویر: Reuters/M. Ismail

جنوبی پنجاب کے شہر ملتان کے نواح سے اغوا کیے جانے والے علی حیدر گیلانی نے اپنی رہائی کے آپریشن کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ امریکی فورسز نے کمال کا آپریشن کیا۔

سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کو القاعدہ کے جنگجوؤں نے تین برس قبل اغوا کیا تھا۔

افغان اور امریکی فورسز نے نو مئی کو ایک آپریشن کرتے ہوئے انہیں ان جنگجوؤں کی قید سے آزادی دلائی تھی۔ علی حیدر نے میڈیا کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، ’’اس رات مجھے صرف امریکی فوجیوں کی سرخ آنکھیں نظر آ رہی تھیں۔ تب جنگجو مجھے تنہا چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔‘‘

علی حیدر کا کہنا تھا کہ تب امریکی فوجیوں نے انہیں گرفتار کر لیا جبکہ ڈرون طیارے ہوا میں اڑ رہے تھے۔ اس آپریشن میں ہیلی کاپٹروں کا استعمال بھی کیا گیا تھا۔

اپنے آبائی شہر ملتان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا، ’’جلد ہی امریکی فورسز نے میری شناخت کر لی کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا اغوا شدہ بیٹا میں ہی ہوں۔‘‘

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق علی حیدر گیلانی کی بازیابی کے لیے امریکی اسپیشل آپریشنز فورسز اور افغان کمانڈوز نے مل کر کارروائی کی۔

علی حیدر کے مطابق القاعدہ کے جنگجوؤں نے انہیں اس لیے گرفتار کیا تھا تاکہ وہ پاکستان میں قید اپنے اعلیٰ جنگجو کمانڈروں کی رہائی کے لیے کوئی سودے بازی کر سکیں۔

بتایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی قید میں زیادہ تر وقت شمالی وزیرستان میں گزارا جبکہ کچھ عرصے بعد انہیں افغان صوبے پکتیکا میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

Afghanistan Ali Haider Gilani wurde befreit
سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کو القاعدہ کے جنگجوؤں نے تین برس قبل اغوا کیا تھاتصویر: Reuters/M. Ismail

علی حیدر کے مطابق، ’’میں نے اپنی قید کی آخری چالیس دن افغانستان میں گزارے جبکہ اس سے قبل ڈھائی سال تک مجھے شمالی وزیرستان میں قید رکھا گیا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ڈرون حملوں سے محفوظ رکھنے کی خاطر جنگجوؤں نے انہیں کبھی غاروں میں رکھا تو کبھی گاڑیوں میں۔

علی حیدر نے گیلانی البتہ ملتان کے گرم موسم کے مقابلے میں شمالی وزیرستان کے پہاڑی علاقوں کے سرد اور معتدل موسم کی تعریف بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ قید کے دوران رونما ہونے والے واقعات پر ایک کتاب لکھنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ انہیں نو مئی 2013ء کو اغوا کیا گیا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید