1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی ’جرمن اسلام کانفرنس‘ کی کارروائی کا آغاز

18 مئی 2010

پیر سترہ مئی کو جرمن دارالحکومت برلن میں دوسری ’جرمن اسلام کانفرنس‘ کے افتتاحی اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے ملک میں آباد مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ معاشرتی عمل میں زیادہ سرگرم اور بھرپور شرکت کریں۔

https://p.dw.com/p/NQTw
تصویر: picture alliance/dpa

چار گھنٹے تک جاری رہنے والے اِس اجلاس میں وزیر داخلہ نے زور دے کر کہا کہ اِس کانفرنس کا مقصد مسلمانوں کو ’جبری طور پر معاشرے میں جذب کرنا نہیں ہے۔‘ اُن کے بقول مقصد یہ ہے کہ مسلمان یہاں کے سماجی معاملات میں زیادہ سے زیادہ شرکت کریں تاکہ جرمن معاشرے میں مسلمانوں کا انضمام بہتر طور پر عمل میں آ سکے۔ ڈے میزیئر نے کانفرنس کے دوران ایک مرتبہ پھر محض جرمنی میں اسلام کے لئے قانونی ڈھانچوں کے موضوع پر بحث کرنے سے خبردار کیا اور واضح کیا کہ یہاں عملی افادیت کے حامل موضوعات زیرِ بحث لائے جائیں گے۔

Deutschland Islamkonferenz 2010 in Berlin Thomas de Maiziere
جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئرتصویر: picture alliance/dpa

’جرمن اسلام کانفرنس‘ کے مکمل اجلاس نے اپنا گیارہ صفحات پر مشتمل جو ایجنڈا منظور کیا ہے، اُس میں جامع انداز میں اُن معاملات کا جائزہ لیا گیا ہے، جن کا تعلق تعلیم و تربیت سے متعلق پالیسیوں سے ہے۔ اِس ایجنڈے میں ’جرمن آئین کی بنیاد پر ریاست اور مسلمانوں اور اُن کی تنظیموں کے مابین تعاون کو باقاعدہ شکل دینے کی وَکالت کی گئی ہے۔‘ تاہم کانفرنس کے میزبان وزیر داخلہ نے زور دے کر کہا کہ تعلیمی اداروں میں اسلامیات کی تعلیم اور جرمن یونیورسٹیوں میں اماموں کی تعلیم و تربیت پر عملی غور کا آغاز ابھی سے کر دیا جانا چاہئے۔

آئندہ برسوں میں کانفرنس کی کارروائی میں جہاں انتہا پسندی پر قابو پانے کے سلسلے میں گفتگو کی جائے گی، وہیں مسلمانوں کی صفوں میں صنفی انصاف کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ اِس مقصد کے لئے ایک مطالعاتی جائزہ ترتیب دینے کی ہدایات دی گئی ہیں، جس کے نتائج زیادہ سے زیادہ آئندہ نو ماہ میں سامنے آ جائیں گے۔ کانفرنس کے طے کردہ ایجنڈے کو متعدد مسلمان تنظیموں نے ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ انفرادی طور پر اِس ایجنڈے کی تعریف بھی کی گئی ہے۔ اپوزیشن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کانفرنس کی تیاری اچھے طریقے سے نہیں کی گئی ہے اور اُن موضوعات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے، جن پر مسلمان بات کرنا چاہتے تھے۔ حکمران جماعت میں شامل جماعتوں کے نمائندوں نے کانفرنس کی تعریف کی ہے۔

جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل (ZMD) اِس کانفرنس میں شریک نہیں ہے۔ اِس عدم شرکت کا جواز اُس نے اِس کانفرنس کے غلط اہداف کو قرار دیا ہے۔ جرمن وزیر داخلہ نے (ZMD) کی جگہ جرمنی میں مراکشی مسلمانوں کی مرکزی کونسل کو کانفرنس میں شریک کر لیا ہے۔ مسلمان تنظیموں کی ایک اور مرکزی انجمن ’اسلام کونسل‘ کو وزیر داخلہ ڈے میزیئر نے مارچ ہی میں اِس کانفرنس میں شریک کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اُس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ ’اسلام کونسل‘ میں شامل سب سے بڑی تنظیم ’ملی گوئیروش‘ کے خلاف مختلف الزامات کے تحت تحقیقات ہو رہی ہیں۔

مغربی یورپ میں فرانس کے بعد سب سے بڑی مسلمان کمیونٹی جرمنی میں ہے۔ جرمنی کی آبادی کا تقریباً پانچ فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اِن تقریباً چار ملین مسلمانوں کی لگ بھگ نصف تعداد کے پاس جرمن شہریت ہے۔

Deutschland Islamkonferenz 2010 in Berlin Tuba Isik-Yigit und Kristina Schröder
جرمن وزیر کرسٹینا اسلامک اسکالر طوبیٰ اسک یگیت کے ساتھتصویر: picture alliance/dpa

پہلی جرمن اسلام کانفرنس (DIK) سابق وزیر داخلہ وولف گانگ شوئبلے کی کوششوں سے سن 2006 ء میں منعقد کی گئی تھی۔ پیر سترہ مئی کو اِس سلسلے کی دوسری کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں جرمن مسلمانوں کی چھ تنظیموں کے نمائندوں اور دَس ممتاز مسلم شخصیات کے ساتھ ساتھ جرمنی کی وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کے سترہ نمائندے بھی شریک ہوئے۔

’جرمن اسلام کانفرنس‘ کا آئندہ مکمل اجلاس سالِ رواں کے اواخر یا آئندہ برس کے اوائل میں منعقد ہو گا۔ اِس دوسری اسلام کانفرنس کے دوران شرکاء سن 2013ء تک اپنے طے کردہ ایجنڈے کے مختلف نکات پر بحث مباحثہ جاری رکھیں گے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید