1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئے سعودی ولی عہد کی تقرری: کيا اس ميں بھی ٹرمپ کا ہاتھ ہے؟

عاصم سلیم
22 جون 2017

سياسی مبصرين کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظاميہ کے مابین بڑھتے ہوئے دو طرفہ روابط کافی حد تک سعودی عرب ميں نئے ولی عہد کی تقرری کا سبب بنے۔

https://p.dw.com/p/2fBky
Donald Trump, Mohammed bin Salman bin Abdulaziz Al Saud
تصویر: picture alliance/AP Photo/E.Vucci

سعودی شاہ سلمان نے اسی ہفتے بدھ کے دن غير متوقع طور پر ستاون سالہ محمد بن نائف کو ولی عہد کے عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ اپنے بیٹے اکتيس سالہ محمد بن سلمان کو نيا ولی عہد مقرر کر ديا۔ نائف سعودی ولی عہد ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی وزير داخلہ کی ذمہ دارياں بھی نبھا رہے تھے۔ ان کی انسداد دہشت گردی سے متعلق خدمات کے سبب سابق امريکی انتظاميہ ميں وہ کافی مقبول تھے ليکن پچھلے دو برسوں کے دوران محمد بن سلمان کی سياسی قوت اور اختيارات ميں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔

فرانسيسی دارالحکومت پيرس کی ’سائنسز پو‘ يونيورسٹی ميں ايسوسی ايٹ پروفيسر اسٹيفن لاکُوا کا کہنا ہے کہ ماضی میں محمد بن نائف کی برطرفی رکوانے ميں سابق امريکی صدر باراک اوباما کی انتظاميہ کا ہاتھ تھا۔ انہوں نے کہا، ’’ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے يہ سب بدل گيا۔‘‘ لاکُوا  کے بقول ڈونلڈ ٹرمپ نے امريکی صدر بننے کے فوری بعد ہی واضح کر ديا تھا کہ مشرق وسطیٰ ميں محمد بن سلمان، ابو ظہبی کے ولی عہد شيخ محمد بن زيد النہيان اور مصری صدر عبدالفتح السيسی ان کے ساتھی ہوں گے۔ نئے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے مارچ ميں امريکا کا دورہ کيا تھا اور پھر جب پچھلے ماہ ٹرمپ نے سعودی عرب کا دورہ کيا، تو انہوں نے امريکی صدر کا شاندار انداز سے استقبال کيا۔

در اصل رياض حکومت کو بھی روايتی حريف ايران کے خلاف ٹرمپ کی مقابلتاً زيادہ جارحانہ حمکت عملی پسند ہے۔ سياسی مبصرين کے مطابق در حقیقت ٹرمپ کا رويہ ہی تھا جس کی وجہ سے سعودی بادشاہ محمد بن سلمان اور ابو ظہبی کے ولی عہد نے موقع پاتے ہی خليجی رياست قطر سے بھی روابط منقطع کر ديے۔ انہوں نے قطر پر دہشت گرد گروہوں کی حمايت کا الزام لگايا اور بعد ازاں ٹرمپ نے بھی اس کی تائيد کی۔

ايسوسی ايٹ پروفيسر اسٹيفن لاکُوا  کے مطابق محمد بن سلمان اس بات سے واقف تھے کہ امريکا کو محمد بن نائف کی برطرفی پر کوئی اعتراض نہيں ہو گا۔ بدھ کو ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے بذريعہ ٹيلی فون رابطہ کرتے ہوئے نئے سعودی ولی عہد کو مبارک باد بھی پيش کی۔

واشنگٹن ميں قائم ’کارنيگی انڈاؤمنٹ فار انٹرنيشنل پيس‘ کے مشرق وسطیٰ کے ليے پروگرام سے وابستہ فريڈرک ويہری کا کہنا ہے کہ اگرچہ سعودی قيادت نئے ولی عہد کی تقرری کے ليے امريکا کی تائيد کی بالکل منتظر نہيں تھی تاہم باہمی تعلقات ميں بہتری اور سعودی عرب ميں چند داخلی وجوہات اس پيش رفت کا سبب بنے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید