1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئے مکانات کی تعمیر کا اسرائیلی فیصلہ، جرمنی کی جانب سے تنقید

1 اکتوبر 2011

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مشرقی یروشلم میں نئے مکانات کی تعمیر کے اسرائیلی منصوبے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ میرکل کے بقول فریقن کے مابین مذاکراتی عمل شروع ہونا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/12kBo
اسرائیل کی جانب سے منظوری دینا ناقابل فہم ہے، میرکلتصویر: dapd

 جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے اسرائیلی منصوبےکوجارحیت قرار دیا۔ میرکل کے بقول اسرائیل کی جانب سے 11سو نئے مکانات کی تعمیر کی منظوری دینا ناقابل فہم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح یروشلم حکومت کے مشرق وسطیٰ امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے ارادوں کے بارے میں شکوک شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ جرمن چانسلر نے نیتن یاہو سے مطالبہ کیا کہ جس قدر جلد ممکن ہو سکے وہ فلسطینی انتظامیہ سے دو ریاستی منصوبے پر بات چیت شروع کریں۔

Bundeskanzlerin Merkel mit Benjamin Netanjahu
فریقین کے مابین مذاکرات شروع ہونے چاہیں، جرمن چانسلر میرکلتصویر: dapd

۔فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات ایک برس قبل اس وقت معطل ہوگئے جب اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے یہودی بستیوں کی تعمیر پر 10ماہ کے لیے لگائی گئی پابندی ختم کر دی تھی۔ محمود عباس کا مطالبہ ہے کہ مذاکراتی عمل صرف اسی وقت شروع ہو سکتا ہے، جب اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو روکے۔ اس سے قبل برطانیہ اور یورپی یونین بھی اسرائیل سے فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کر چکے ہیں

اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکہ اور روس نے گزشتہ ہفتے اسرائیل اور فلسطینیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک ماہ کے اندر اندر تعطّل کے شکار مذاکراتی عمل کو دوبارہ شروع کریں۔ اس سے قبل فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس امریکہ اور اسرائیل کی شدید مخالفت کے باوجود اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت کی درخواست دے چکے ہیں۔

اسرائیل کی جانب سے مشرقی یروشلم پر قبضے کو بین الاقوامی سطح پرمخالفت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسی وجہ سے اس اسرائیلی اقدام کو ابھی تک بین الاقوامی برادری کی جانب سے تسیلم نہیں کیا گیا۔ اسرائیل مشرقی یروشلم پر اپنی گرفت مظبوط کرنے کا کہتے ہوئے دس تعمیراتی منصوبے مکمل کر چکا ہے۔ ان میں سے سب سے بڑی گیلوکی یہودی بستی ہے، جس کی آبادی تقریباً 50 ہزار ہے۔

 

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت : ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں