1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نائن الیون کے بعد سے جرمن قوانین میں سختیاں

کشور مصطفٰی11 ستمبر 2008

دھشت گردی کے سد باب اور اس سے بچاؤ کے لئے کئے جانے والے اقدامات میں کمپیوٹرز پر موجود مواد کی چھان بین اور ٹیلی فون کے ذریع ہونے والی بات چیت خفیہ طور پر سننے کا عمل شامل ہے۔

https://p.dw.com/p/FGM1
تصویر: AP

تاہم زاتی کوائف کے محافظین کے لئے یہ اقدام شکوک و شبہات کا باعث ہیں اور جرمنی کے سیاسی حلقے میں یہ ایک مسلسل متنازع موضوع کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

سات سال قبل سن دہ ہزار ایک میں دنیاء اب تک کے شدید ترین دھشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں لرز اُٹھی تھی۔ اس کے بعد سے دنیاء بھر میں سلامتی کے قوانین میں غیر معمولی سختی لائی گئی۔ جرمنی اب تک اس طرح کے حملوں سے بچا ہوا ہے۔ تاہم جرمنی کے انسداد جرائم کے وفاقی دفتر کا ماننا ہے کہ اسلامی دھشت گردوں نے جرمنی کو ہدف بنانے کا عزم کر رکھا ہے۔

جرمنی میں جس انداز سے سلامتی کو یقینی بنانے کی کوششں کی گئی ہیں اس بارے میں احتلاف رائے کا دائرہ کافی وسیع ہے۔ سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی ایس پی ڈی کے پارلیمانی دھڑے کے داخلہ امور کے ترجمان Dieter Wiefelspütz کا خیال ہے کہ برلن میں شہری لندن اور نیو یارک کے مقابلے میں محفوظ تر زندگی بسر کر رہے ہیں اور یہ حقیقیت بھی ہے۔ دارلحکومت برلن اور تمام جرمنی ہی اب تک خوفناک حملوں سے بچا ہوا ہے۔ ادھر ماہرین جرمن خفیہ سروس اور اسداد دھشت گردی کے وفاقی دفتر کا کہنا ہے کہ جرمنی ایک عرصے سے دھشت گردوں کے اہداف میں شامل ہے۔ ایک سال قبل تک سب کچھ ٹھیک ہی لگتا تھا۔ تاہم مغربی جرمن علاقے زاؤور لینڈ میں متعدد مبینہ دھشت گرد پکڑے گئے جو غالباٍ جرمنی میں قائم امریکی تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اس واقع کے بعد سے وفاقی جرمن وزیر داخلہ وولف گانگ شوآئبلے کی یہ حکمت عملی صحیح ثابت ہو گئی کہ سلامتی کے اداروں کو زیادہ سے زیادہ کاروائیوں کی اجازت ہونی چاہئے۔ جرمن وزیر داخلہ نے کہا کہ ان کے ملک کی سلامتی اور یہاں کے باشندوں کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ تھا ایک خطرہ جس پر قابو پا لیا گیا۔ وولف گانگ شوآبلے نے کہا کہ ان کا ملک ایک محفوظ ملک ہے۔ یہاں کے سلامتی کے اداروں کو تمام تر سپورٹ اور احترام ملنا چاہئے۔

نائن الیون کے بعد سے جرمنی میں متعدد قوانین میں سختی لائی گئی ہے۔ بہت سی ایسی اسلامی تنظیموں، جن کا شمار دھشت گردی کی صلاحیت رکھنے والوں کی آماج گاہ سمجھا جاتا تھا ، کومیسر نام نہاد مذہبی مراعات سے محروم کر دیا گیا۔ جرائم کا سراغ لگانے والوں کو عام شہریوں کے مالی کوائف، آئر ٹریفیک ، اور ٹیلی مواسلات تک رسائی کا حق حاصل ہو گیا اور اب تو ہر کسی کے زاتی کوائف میں بائیو میٹرک ڈیٹا کا اندراج لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔

ماحول پسند گرین پارٹی کے داخلہ سیاسی امور کے نگراں اور سلامتی کے نئے قوانین کے ناقد Wolfgang Wieland کے خیال میں سلامتی کے اداروں کے ان اختیارات کے بارے میں پارلیمان میں کوئی کنٹرول سسٹم ہونا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں:’’ ہمارے پاس جرائم کا ایک وفاقی دفتر ہے، جسے وہ تمام تر اختیارات حاصل ہیں جو آئینی تحفظ کے وفاقی دفتر کو بھی میسر ہیں، تاہم اس پر کوئی پارلیمانی کنٹرول لاگو نہیں کرتا۔‘‘

اس سال خزاں میں اس پی ڈی اور سی ڈی یو کی مخلوط حکومت وفاقی جرائم کے دفتر کے متنازع قانون کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔