1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ناروے نے بھی سیاسی پناہ کے قوانین سخت کر دیے

عاطف توقیر20 نومبر 2015

ناروے کی حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر قانون سازی کر کے سیاسی پناہ سے متعلق ملکی ضوابط کو سخت تر بنا دیا ہے۔ گزشتہ روز منظور کیا گیا ایک قانون آج جمعہ بیس نومبر سے نافذ العمل بھی ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1H9YC
Norwegen Flüchtlinge Storskog
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Meek

ناروے کی موجودہ مخلوط حکومت کو مہاجرین کے بحران کے تناظر میں سخت تنقید کا سامنا ہے اور خصوصاﹰ مہاجرین مخالف پارٹیوں کی عوامی حمایت میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔

پانچ اعشاریہ دو ملین کی آبادی والا یہ شمالی یورپی ملک یورپی یونین میں تو نہیں ہے، تاہم شینگن زون میں آتا ہے یعنی شینگن ممالک سے آنے والے افراد کے ملک میں داخلے پر ان کے پاسپورٹ یا سفری دستاویزات نہیں دیکھی جاتیں۔ ناورے کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ رواں برس سیاسی پناہ کے متلاشی 35 ہزار افراد کی درخواستیں قبول کرے گا، تاہم اگست سے اب تک مہاجرین کی بڑی تعداد کے ملک میں مسلسل داخلے کی وجہ سے اس حد کو کئی مرتبہ بڑھایا جا چکا ہے۔

Syrische Flüchtlinge in Norwegen
مہاجرین کا ایک پسندیدہ منزل ناروے بھی ہےتصویر: Reuters/T. Meek

خبر رساں اداروں کے مطابق ایک ایسے وقت پر جب یورپ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک کے مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے، مغربی یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ مہاجرین کی ایک پسندیدہ منزل ناروے بھی ہے۔

اوسلو میں حکمران مخلوط حکومت، جو قدامت پسندوں اور مہاجرین مخالف پروگریس پارٹی سے مل کر بنی ہے، نے مہاجرین اور پناہ گزینوں سے متعلق سخت ترین قانون سازی کا عندیہ گزشتہ جمعے کو دیا تھا۔

جمعرات کے روز پارلیمان میں پیش کیا گیا بل اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی اور متعدد دیگر جماعتوں کی مدد سے منظور کیا گیا اور کابینہ سے فوری منظوری کے بعد آج جمعے کے روز ناروے کے بادشاہ نے بھی اس پر دستخط کر دیے، جس کے بعد وہ فی الفور نافذالعمل ہو گیا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ناروے میں مہاجرین مخالف جماعت پروگریس پارٹی کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور عوامی جائزوں کے مطابق اکتوبر میں اس جماعت کی مقبولیت جو صرف 7.3 فیصد تھی اب بڑھ کر 17.5 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جب کہ مخلوط حکومت میں شامل مرکزی جماعت قدامت پسند پارٹی کی مقبولیت میں 3.3 فیصد کی کمی ہوئی ہے تاہم یہ پارٹی ابھی بھی ملک کی مقبول ترین جماعت ہے۔

روئٹرز کے مطابق مہاجرین کے حوالے سے جو ہمدردی اور رحم دلی کے جذبات کچھ عرصہ قبل تک دکھائی دے رہے تھے، اب ناروے میں جاری بحث اس کے بالکل مخالف سماجی رویوں کی دلیل دے رہی ہے۔ روئٹرز نے لکھا ہے کہ ناروے میں اس موضوع پر جاری بحث کا مرکزی نقطہ مہاجرین کو لاحق مسائل کی بجائے اب یہ ہے کہ ان مہاجرین کے ساتھ کتنے مسائل ناروے پہنچ رہے ہیں۔

ناروے میں متعارف کروائے گئے اس نئے قانون کی میعاد دو برس رکھی گئی ہے اور اس قانون کے تحت اب حکام کے لیے نہایت آسان ہو گیا ہے کہ وہ کسی شخص کی سیاسی پناہ کی درخواست کو مسترد کر کے اسے ملک بدر کر دیں۔ اس قانون میں یہ بھی درج ہے کہ جنگ زدہ ممالک سے آنے والے اگر کسی شخص نے ناروے پہنچنے سے قبل کسی ایسے ملک میں کچھ عرصہ سکونت اختیار کی ہو، جو محفوظ تھا، تو اس کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد کر دی جائے گی۔

اس کے علاوہ اس قانون میں درج مختلف شقوں کے مطابق غیرملکی شہریت کے حامل افراد کو ایسی صورت میں حراست میں بھی لیا جا سکتا ہے، جب یہ گمان ہو کہ ان کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو جائے گی۔

اس کے علاوہ سیاسی پناہ کی درخواست دینے والے افراد کے لیے لازم قرار دے دیا گیا ہے کہ وہ اپنے لیے مختص کردہ جگہ یا علاقے سے باہر جاتے ہوئے حکام کو مطلع کریں۔