1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نازی سوشلسٹ دور کا اذیت مرکز: بُوخن والڈ

شہاب احمد صدیقی / عابد حسین5 جون 2009

امریکی صدر اوباما جرمنی کے دو روزہ دورے کے دوران نازی سوشلسٹ دور کے اذیتی مرکز میں امریکی فوج کی آمد اور وہاں قیدیوں کی رہائی کی یاد تازہ کرنے جرمن شہر ڈریزڈن پہنچ چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/I3jQ
اذیتی مرکز، بوخن والڈ، کی امریکی صدر اوباما کے لئے خاص طور سے تزئین کی گئی ہے۔تصویر: AP

جرمنی ميں نازيوں کے دور حکومت ميں بوخن والڈ کا جبری کيمپ سب سے بڑا جبری کيمپ تھا۔ اپريل 1945 تک يہاں سارے يورپ سے ہزاروں افراد کو قيد کر کے لايا گيا اور ان سے،خاص طور سے ہتھياروں کی تياری ميں جبراً کام لياگيا۔ سن 1945 ميں امريکی فوج نے زندہ بچ جانے والے قيديوں پہنچ کر رہائی دلائی۔ان ميں امريکی صدر اوبامہ کے ايک عزيز بھی تھے۔

60 Jahre danach - KZ Buchenwald
بوخن والڈ کا عقوبت خانہ، اِس تصویر میں نوبل انعام یافتہ جرمن دانشور، Elie Wieselنچلی قطار میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اُن سے بھی امریکی صدر ملاقات کریں گے۔تصویر: AP

امريکی صدر اوبامہ دراصل چھ جون 1944 کو نارمنڈی ميں اتحادی فوج کے اترنے کی پينسٹھويں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کے لئے يورپ آرہے ہيں۔ ليکن وہ اس سے ايک روز قبل،جرمنی بھی آ ئيں گے۔اس طرح وہ دوسری عالمی جنگ ميں بوخن والڈ ميں نازيوں کے جبری کيمپ میں اپنے ايک عزيز کے زمانہٴ قيد کی يادتازہ کرنا چاہتے ہیں، جنہيں سن 1945ميں امريکی فوج نے رہائی دلائی تھی۔

بوخن والڈ اور دوسرے جبری کيمپوں ميں بہت سے قيدی نازيوں کے مظالم کی تاب نہ لاتے ہوئے موت کا شکار ہوگئے تھے۔کيمپ کے اردگردخاردار تار کی باڑھ لگی ہوئی تھی اور ايسے تاروں کی باڑھ بھی تنی ہوئی تھی جن ميں بجلی کی رو دوڑائی جاتی تھی۔کيمپ کے پہرے دار مشين گنوں سے مسلح ہوتے تھے۔ امريکی فوج کی آمد سے کچھ ہی قبل، کيمپ کے قيدی، پہرے داروں سے ہتھيار چھين کر خود کو رہا کرواچکے تھے۔

Barack Obama landet in Dresden
امریکی صدر جرمنی پہنچنے کے بعد کار میں روانہ ہوئے ہوئے۔تصویر: AP

امريکيوں نے يہاں پہنچنے پر جو منظر ديکھا وہ خوفناک تھا۔لاشوں کے ڈھير لگے ہوئے تھے۔ايک امريکی رپورٹر کا کہنا تھاکہ بوخن والڈ کے عقوبت خانے کو دیکھ کر ايسا معلوم ہوتا تھا کہ زيادہ تر مردوں اور لڑکوں کی موت بھوک کی وجہ سے واقع ہوئی تھی۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ موت کی یہ وجہ غير اہم تھی۔اصل بات تو يہ تھی کہ بوخن والڈ ميں لوگوں کو قتل کيا گيا تھا۔

Elie Wiesel
بوخن والڈ سے بچ جانے والے نوبل انعام یافتہ جرمن دانشور، ایلی ویزل، کی ایک تازہ تصویرتصویر: AP

کيمپ پر امريکی قبضے کے فورا بعد اردگرد کے علاقے کے جرمن شہريوں کو امريکی حکم پر کيمپ ميں لے جا کر سب کچھ دکھايا گيا۔ لاشوں کے ڈھير،گيس چيمبر جن ميں قيديوں کو زہريلی گيس سے ہلاک کيا جاتا تھا اور انتہائی کمزور اور علیل قيدی۔

اُس وقت کی امريکی فوج کے ايک سارجنٹ نے اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا تھا کہ کيمپ ديکھنےوالے سب جرمنوں نے يہی کہا کہ انہيں اس کے متعلق کچھ علم نہيں تھا، مگر اُن کے چہروں سے عیاں تھا کہ وہ يہ جانتے تھے کہ وہاں کيا کچھ ہوا ، ليکن وہ يہ يقين نہيں کرنا چاہتے تھےکہ ايسا ہوا تھا۔

بعد ميں اعلی امريکی جنرلوں نے بھی بوخن والڈ کے جبری کيمپ کا دورہ کيا۔ان ميں جنرل آئزن ہاور بھی تھے جنہوں نے اپنے روزنامچے ميں لکھا کہ يہ ان کے لئے ايک سخت دھچکہ تھا۔