1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ناصر کاظمی، عشق اور ہجرت کا شاعر

صائمہ حیدر
2 مارچ 2017

دو مارچ بروز جمعرات معروف و مقبول شاعر ناصر کاظمی کی 45 ویں برسی منائی جا رہی ہے۔ اس دن کی مناسبت سے پاکستان میں مختلف یادگاری تقریبات کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2YWLH
Twitter Screenshot Nasir Kazmis
تصویر: Twitter/nasir kazmi

میر جدید کہلانے والےعہد ساز شاعر ناصر کاظمی کی شاعری لطیف انسانی جذبات کی بہترین ترجمان ہے۔ آٹھ دسمبر سن انیس سو پچیس کو بھارت کے شہر انبالہ میں پیدا ہونے والے اس شاعر نے اپنی سینتالیس سالہ زندگی کا بیشتر حصہ چائے خانوں، اور رات کی کہانیاں سناتی ویران سڑکوں پر رتجگے کرتے ہوئے گزارا۔ اُن کی بہترین نظمیں اور غزلیں انہیں رتجگوں کا نچوڑ ہیں۔

ناصر نے شاعری میں اپنی لفظیات اور حسیات کے پیمانے رومانوی رکھے اس کے باوجود اُن کا کلام عصرِ حاضر کے مسائل سے جڑا رہا۔ چھوٹی بحر کی خوبصورت پیرائے میں لکھی گئی غزلیں اور منفرد استعارے اُن کی شاعری کو دیگر ہمعصر شعرا کے اُسلوبِ کلام  سے ممتاز کرتے ہیں۔

ناصر کاظمی کا پہلا مجموعہ کلام ’برگِ نے‘ سن 1954 میں شائع ہوا اور منظرعام پر آتے ہی مقبولیت حاصل کر لی۔ ان کے دیگر شعری مجموعوں میں ’پہلی بارش‘، ’نشاطِ خواب‘، ’دیوان‘ اور ’سُر کی چھایا‘ شامل ہیں۔ اِس کے علاوہ ان کے مضامین کا ایک مجموعہ ’خشک چشمے کے کنارے‘ بھی شائقینِ اردو نثر سے داد وصول کر چکا ہے۔

ناصر کاظمی معروف ادبی رسالوں ’اوراقِ نو‘ ، ’ہمایوں‘ اور ’خیال‘ کی مجلسِ ادارت میں شامل رہے۔ بعد ازاں وہ ریڈیو پاکستان لاہور سے بطورِ اسٹاف ایڈیٹر منسلک ہو گئے اور پھر اپنی وفات تک اسی سے وابستہ رہے۔

ناصر کاظمی کلاسیکل شعرا میں سب سے زیادہ میر تقی میر سے متاثر ہوئے۔ اس کے علاوہ فراق، غالب اور دیگر اساتذہ کے کلام سے بھی اکتسابِ فیض کیا۔ تاہم روایتی غزل کے احترام کے باوصف اپنی شاعری میں جدید رنگ اور حسنِ ادا کو بھر پور انداز میں شامل رکھا۔ اسی عام فہم اندازِ فکراور اُسلوب کے باعث ناصر عوامی شاعر بن گئے۔

دل دھڑکنے کا سبب یا آیا

وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

حالِ دل ہم بھی سناتے لیکن

جب وہ رخصت ہوا تب آیا 

ناصر کاظمی نے بر صغیر کی آزادی کے ہنگام کو دیکھا اور اس کے ہمراہ آئے دکھ اور الام اُن کی روح کو جھنجوڑ گئے۔ ہجرت کے صدمے سے دوچار  ایسی ہی کسی کیفیت میں ناصر نے کہا ہو گا۔

تو جو اتنا اداس ہے ناصر

تجھے کیا ہو گیا بتا تو سہی

ایک اور شعر میں ناصر کہتے ہیں

شہر اجڑے تو کیا، ہے کشادہ زمینِ خدا

اک نیا گھر بنائیں گے ہم، صبرکر، صبر کر

ناصرکاظمی ایک سچے تخلیق کار تھے، وہی لکھتے جو دل پر گزرتی۔ معروف ادیب ممتاز مفتی نے اُن کے بارے میں کہا تھا کہ ناصر کاظمی نہ صرف شاعر تھے بلکہ شاعر دکھائی بھی دیتے تھے۔ ایک گہری سوچ اور فکر اُن کے چہرے پر ہمہ وقت ڈیرہ جمائے رہتی تھی۔

ناصر کاظمی نے سن انیس سو سینتالیس میں پاکستان بنتے بھی دیکھا اور سن انیس سو اکہتر میں سقوط ڈھاکا کے مناظر بھی۔ اگر دیکھا جائے تو اُن کی شاعری ان دونوں ادوار کے دوران پاکستان کی تاریخ کا ترتیب نامہ بھی ہے۔

وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے

وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے

وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں

جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے

یہ ناصر کاظمی کا منفرد اور دلوں کو چھونے والا اُسلوبِ بیان ہی تھا جس کی بدولت آج اُن کا کلام عوام میں پہلے سے کہیں زیادہ مقبول اور محبوب نظر آتا ہے۔ 2 مارچ سن 1972 کو سخن کی یہ شمع گل ہو گئی لیکن لاہور کے مال روڈ آج بھی اپنے شب بیدار شاعر کے قدموں کی چاپ کی منتظر تو رہتی ہو گی۔

ناصر کاظمی کی کتبے پر اُنہی کا یہ زبان زد عام شعر درج ہے

دائم آباد  رہے  گی  دنیا

ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا