1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ناقابل تردید‘ دستاویزی ثبوت افغانستان کو دیں گے، پاکستان

شکور رحیم، اسلام آباد21 ستمبر 2015

پاکستان کی اعلیٰ سول اور فوجی قیادت نے پشاور میں پاکستانی فضائیہ کے کیمپ پر گزشتہ جمعے کو ہونے والے حملے کے بارے میں ان ’ناقابل تردید شواہد‘ کا جائزہ لیا ہے جو بہت جلد افغان حکومت کے حوالے کیے جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/1GZnQ
Pakistan Angriff auf Luftwaffenstützpunkt in Peshawar
تصویر: DW/F. Khan

پیر کے روز وزیرِ اعظم سیکرٹریٹ سے جاری کیے گئے ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والے اجلا س میں فضائیہ کے کیمپ پر حملے کے بارے میں متعدد شواہد پیش کیے گئے جن میں ان شواہد کو علیحدہ کیا گیا، جو افغان حکام کے حوالے کیے جائیں گے۔ یہ دستاویزی ثبوت لے کر پاکستانی حکام بہت جلد کابل جائیں گے۔

بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں سلامتی سے متعلق ہونے والے اس اجلاس میں وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارکے علاوہ بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف، ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز میجر جنرل عامر ریاض، ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ میجر جنرل ندیم ذکی نے شرکت کی۔

بیان کے مطابق اس اجلاس میں ملک کی مجموعی سلامتی کی صورتحال، افغانستان کو شواہد کی فراہمی اور سرحدی انتظام کے لئے حکمت عملی کے تبادلے اور دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان کے نفاذ کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس اجلاس کی کارروائی سے واقفیت رکھنے والی ایک حکومتی شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اجلاس کے شرکاء کے سامنے بڈھ بیڑھ کیمپ پر حملے کے ایسے ناقابل تردید ثبوت رکھے گئے جن سے یہ واضح تھا کہ حملہ آور افغانستان میں شدت پسندوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں ان ثبوتوں کا جائزہ لینے کے بعد انہیں جلد کابل حکومت کے حوالے کرنے اور وہاں سے پاکستانی سرزمیں پر خونریز حملے کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے لئے افغان حکومت پر زور دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق وزیر داخلہ نے اجلاس کے شرکاء کو دہشت گردانہ حملے میں مارے گئے چودہ میں سے پانچ حملہ آوروں کے کوائف مقامی میڈیا پر افشاں ہونے کے بارے میں اپنی تشویش سے بھی آگا ہ کیا۔ انہوں نے شرکاء کو بتایا کہ اس حوالے سے انہوں نے تحقیقات کا حکم دے رکھا ہے کہ کس طرح ان دہشت گردوں کے کوائف افشاں ہوئے۔

خیال رہے کہ جمعے کے روز پشاور کے قریب بڈھ میں پاکستانی فضائیہ کے کیمپ پر دہشت گردانہ حمے میں پاکستانی فوج کے ایک کیپٹن اور فضائیہ کے اہلکاروں سمیت تیسں افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے جبکہ جوابی کارروائی میں چودہ طالبان کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے جمعے ہی کے روز ایک پریس کانفرس میں کہا تھا کہ کہ اس حملے کی منصوبہ بندی، تیاری افغانستان میں کی گئی اور دہشت گرد بھی افغانستان سے ہی آئے تھے۔

تاہم پاکستانی میڈیا پر بڈھ بیر کیمپ میں مارے جانے والے جن پانچ حملہ آوروں کے کوائف جاری کیے گئے ان میں سے تین کا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی جبکہ دو کا تعلق سوات سے تھا۔

افغان امور کے ایک تجزیہ کار سلیم صافی کے مطابق افغان صدر اشرف غنی کا لب و لہجہ پاکستان کے حوالے سے اپنے پیشرو حامد کرزئی کی طرح سخت ہو چکا ہے اور وہ پاکستان سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان میں بیٹھ کر افغانستان میں دہشت گردانہ حملے کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کرے۔ سلیم صافی کے مطابق، "اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی حکام کتنے ٹھوس شواہد افغان حکومت کو پیش کرتے ہیں، جن سے یہ ثابت ہوسکے کے بڈھ بیڑھ پر حملہ کرنے والے افغانستان سے آئے تھے اور انہیں اس حملے کے لئے مدد بھی افغانستان کی سرزمین سے ملی۔ لیکن یہ ثابت کرنے کے لئے ناقابل تردید شواہد بھی ہونے چاہیے تاکہ اگر ضرورت پڑے تو یہ ثبوت غیر جانبدار ملکوں کے سامنے رکھ کر اپنا مؤقف ثابت کیا جاسکے۔"

پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق اعلیٰ سطحی وفد جلد کابل کے لئے روانہ ہوگا، جہاں پر افغان سول اور فوجی حکام سے ملاقاتوں میں بڈھ بیر حملے میں افغانستان کی سرزمین استعمال ہونے سے متعلق ثبوت پیش کیے جائیں گے۔