1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نجی مسلح گروپ کے سبب نیٹو اور کابل حکومت میں اختلاف

28 دسمبر 2011

شمالی افغانستان میں مختلف تعمیری منصوبوں کی حفاظت پر مامور نجی مسلح دستوں کے سبب کابل حکومت اور مغربی دفاعی اتحاد کے مابین اختلافات طول پکڑتے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/13aPf
تصویر: picture-alliance/dpa

نیٹو کے کریٹیکل انفراسٹرکچر پروٹیکشن پروگرام (CIP) کے تحت کام کرنے والے سینکڑوں مسلح افراد کو ایک متوازی سکیورٹی فورس کی حیثیت حاصل ہے۔ افغان وزارت داخلہ کے مطابق عوام کو اس فورس سے کئی شکایات لاحق ہیں لہٰذا اسے فی الفور تحلیل کر دیا جائے۔ نیٹو کا البتہ مؤقف ہے کہ اس بارے میں غور و خوض کیا جا رہا ہے اور حتمی فیصلہ ہو جانے تک یہ فورس اپنا کام جاری رکھے گی۔

(CIP) کے تحت قریب 1500 مسلح افراد سرگرم عمل ہیں۔ افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان ایمل فیضی کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام اُن پروگراموں میں سے ایک ہے، جن کی صدر کرزئی نے ہمیشہ مخالفت کی ہے، ’’یہ نیٹو نے یکطرفہ طور پر تشکیل دیے ہیں، افغان حکومت سے رابطہ کیے بغیر‘‘۔

نیٹو کے تحت سلامتی کی بین الاقوامی معاون فورس ISAF کی ترجمان نے صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ فی الحال یہ پروگرام ختم کرنے کے احکامات جاری نہیں کیے گئے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نےISAF کی شمالی کمان کی ترجمان لیفٹیننٹ جونیئر گریڈ چیری کولنز کی ایک ای میل کا حوالہ دیا ہے۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ (CIP) کے مسلح افراد ضلعی انتظامیہ اور صوبائی گورنر کے زیر انتظام ہیں اور اتحادی افواج ہر تین ماہ بعد ان کی کارکردگی کا جائزہ لیتی ہیں۔

NO FLASH Bismillah Khan Mohammadi
افغان صدر کے مشیر داخلہ بسم اللہ محمدی نے نجی سکیورٹی اداروں کو تحلیل کرنے کی ضرورت اجاگر کی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

دوسری جانب افغان وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ حکومتی مؤقف نیٹو پر واضح کر دیا گیا ہے۔ وزارت کے ترجمان صدیق صدیقی کے بقول، ’’عوام ان سے خوش نہیں، وہ محض قومی پولیس چاہتے ہیں، جس کے ااہلکاروں کو وہ پہچان سکیں، ہم نے نیٹو پر واضح کر دیا ہے کہ ہم اس فورس کو غیر فعال دیکھنا چاہتے ہیں‘‘۔ خیال رہے کہ اتحادی افواج نے افغانستان میں متعدد مسلح قوتیں تشکیل دے رکھی ہیں۔ اس کی وجہ شورش زدہ ملک میں سلامتی کی ناقص صورتحال بیان کی جاتی ہے۔

(CIP) کے مسلح اہلکار شمالی مشرقی صوبوں قندوز، فریاب، جوزجان، سر پل اور لغمان میں فعال ہیں۔ ان کی حمایت کرنے والوں کا مؤقف ہے کہ بے روزگاری سے بچانے کے لیے ان افراد کو قومی فوج یا پولیس میں ضم کیا جائے۔

دریں اثناء افغان صدر حامد کرزئی نے خلیجی ریاست قطر میں طالبان کے رابطہ دفتر کے قیام کے لیے حمایت کا اظہار کر دیا ہے۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں