1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نسل پرستی کا سیاہ بھوت، تبصرہ

کیرسٹن کنیپ / آئی اے8 جنوری 2016

نئے سال کے موقع پر خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والوں کی شناخت میڈیا کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور ’عرب یا شمالی افریقی‘ تھے۔ کیا یہ رپورٹوں میں یہ بتانا چاہیے یا نہیں؟

https://p.dw.com/p/1HaFu
Köln Hauptbahnhof Übergriffe Entschuldigung Mann aus Syrien
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Hitij

ڈوئچے ویلے کا تبصرہ نگار کیرسٹن کنیپ کے مطابق یہ بتانا ضروری ہے کہ جنسی حملہ آور کون تھے۔ وکی لیکس کے بعد سے دنیا بھر کے سرکاری محکمے اس بات سے آگاہ ہیں کہ اندرونی مواصلات ایک ایسی چیز ہے، جس میں انتہائی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنا اور خیال رکھنا ضروری ہے کیو نکہ یہ عوام تک بھی پہنچ سکتی ہیں۔ اب بظاہر ایک سینیئر پولیس افسر کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے، جو اندرونی رپورٹ سرکاری حکام کے لیے تھی، وہ جرمنی کے مشہور اخبار ’بِلڈ‘ نے شائع کر دی ہے۔

قصورواروں کی نشانیاں

پولیس کی رپورٹ میں ملزموں سے متعلق نشانیاں لکھی جاتی ہیں۔ اس رپورٹ میں ملزموں کے آبائی ملکوں کا بار بار ذکر کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ جنسی حملوں میں ایک ہزار سے زائد افراد، جن میں زیادہ تر مرد غیرملکی پس منظر والے ہیں، ملوث تھے۔ اس رپورٹ میں خصوصی طور پر غیرملکی مہاجرین کی بڑی تعداد کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں انفرادی مناظر بھی درج کیے گئے ہیں۔ لکھا گیا ہے کہ کئی افراد نے اقامتی اور شناختی اجازت نامے پولیس کی آنکھوں کے سامنے پھاڑ دیے۔ ساتھ ہی پولیس نے یہ تبصرہ بھی لکھا ہے کہ یہ طریقہ کار ایسا تھا جیسے کہ وہ کہہ رہے ہوں، ’’آپ ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ میں صبح ہی ایک نیا اقامتی اجازت نامہ حاصل کر لوں گا۔‘‘ رپورٹ میں ایک شخص کا یہ بیان بھی قلمبند کیا گیا ہے، ’’میں شامی ہوں۔ آپ کو میرے ساتھ عزت سے پیش آنا چاہیے۔ مسز میرکل نے مجھے مدعو کیا ہے۔‘‘

Knipp Kersten Kommentarbild App
ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار کیرسٹن کنیپ

کیا آبائی ملک کا ذکر کیا جائے؟

اب صحافتی اور سیاسی لحاظ سے یہ نشانیاں دھماکہ خیز ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان سے کیا نتیجہ نکالا جائے؟ جرمن پریس کوڈ اس معاملے میں محدود مدد فراہم کرتا ہے۔ ملزمان کے آبائی ملکوں کا ذکر اسی وقت کرنا چاہیے، جب کوئی قابل وجہ ربط بنتا ہو ورنہ ایسے الفاظ ’’معاشرے میں اقلیتوں کے خلاف تعصب پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں۔‘‘

لیکن تبصرہ نگار کیرسٹن کنیپ کے مطابق یہ سوال فلسفے کے لحاظ سے انتہائی اہم ہے کہ ’’تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟‘‘ کیا یہ ممکن ہے کہ لوگ اس سے قطع نظر سوچیں کہ ان کا تعلق کہاں سے ہے؟ آپ کا آبائی ملکوں سے تعلق اس قدر مضبوط ہوتا ہے کہ آپ تمام تر کوششوں کے باوجود بھی اس سے کنارہ کش نہیں رہ سکتے۔ لوگوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ قصورواروں کا تعلق کہاں سے تھا۔

جرمن معاشرے میں مہاجرین سے متعلق بحث مستقبل میں بھی جاری رہے گی اور عوام ہر طرح کی اور طرف سے معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔ وہ صرف صحافیوں ہی سے خیالات مستعار نہیں لیتے بلکہ وہ معاشرتی تبدیلیوں کو بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاملے میں کھل کر اور بغیر تحفظات کی بحث ہونی چاہیے۔