1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نسل پرستی کے خلاف کانفرنس بائیکاٹ کے سائے میں

گوہرنذیر گیلانی20 اپریل 2009

نسل پرستی کے خلاف اقوام متحدہ کے زیراہتمام ایک کانفرنس پیرکوسوئٹزر لینڈ کے شہرجنیوا میں شروع ہوئی تاہم جرمنی سمیت کئی مغربی ملکوں کی طرف سے بائیکاٹ کے نتیجے میں اس کانفرنس نے ایک نئی بحث اور کئی نئے تنازعات کوجنم دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/HaiI
جینوا میں نسل پرستی کے خلاف عالمی کانفرنس نے نئے تنازعات کو جنم دیاتصویر: AP

اسرائیل نے جنیوا کانفرنس میں مہمان کے طور پر ایرانی صدر محمود احمدی نژادکی شرکت پر احتجاج کرتے ہوئے اپنے سفیر کو سویٹزرلینڈ سے واپس بلالیا ہے۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ محمود احمدی نژاد ’’خود ایک نسل پرست ہیں اور اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹانے اور نازی دور میں یہودیوں کے قتل عام کی نفی کرنے جیسے سخت گیر بیانات دے چکے ہیں۔‘‘

اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک نے کہا کہ ان کے ملک کو کانفرنس میں احمدی نژاد جیسی ’’متنازعہ‘‘ شخصیت کی شرکت پر شدید اعتراض ہے۔

’’جب نسل پرستی کے خلاف عالمی کانفرنس میں محمود احمدی نژاد مہمان ہوں تو آپ ہمارے احتجاج اور بائیکاٹ کو سمجھ سکتے ہیں۔‘‘

Israel Verteidigungsminister Ehud Barak Regierungskrise
اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک کے مطابق ایرانی صدر کی اس کانفرنس میں شمولیت اسرائیل کے بائیکاٹ کی وجہ بنیتصویر: AP

امریکہ، جرمنی، کینیڈا، اٹلی، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور اسرائیل سمیت چند دیگر ممالک نےنسل پرستی پر جنیوا میں ہونے والی اس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہے۔ ان ملکوں نےکانفرنس کے مسودہء قرارداد پر شدید اعتراضات ظاہر کئے ہیں۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ کانفرنس کے ڈرافٹ سے مذہب سے متعلق آزادیء رائے کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس سے اسرائیل کے تنہا ہونے کے بھی خدشات ہیں۔

اگرچہ فرانس نے اس کانفرنس کا بائیکاٹ نہیں کیا تاہم خبردار ضرورکیا تھا کہ اگر احمدی نژاد یہودی مخالف کوئی بیان دیتے ہیں تو اس صورت میں وہ بھی اس کا بائیکاٹ کرے گا۔

Ban Ki Moon eröffnet Antirassismus Konferenz in Genf
اقوام متحدہ نے اس کانفرس کا بائیکاٹ کرنے والے ممالک کے طرز عمل کو غیر مناسب قرار دیا ہےتصویر: AP

دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کانفرنس کے شروع ہوتے ہی اپنے ایک بیان میں اس بات پر سخت افسوس ظاہر کیا کہ نسل پرستی کے خلاف جدوجہد سے متعلق جن ملکوں کی اس کانفرنس میں شرکت اہم تھی، انہوں نے ہی اس کا بائیکاٹ کیا ہے۔

’’ایسے ملک، جنہیں بہتر مستقبل کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے تھا، وہ یہاں نہیں ہیں۔ ان سب کو یہاں ہونا چاہیے تھا۔ سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود ان ممالک کو اس کانفرنس میں شرکت کرکے بات چیت کرنا چاہیے تھی۔‘‘

بان کی مون نے تاہم اس امید کا اظہار کیا کہ مستقبل میں یہ سلسلہ جاری نہیں رہے گا۔

بان کی مون اور اقوام متحدہ کی کمیشنربرائے انسانی حقوق این پیلائے نے خبردار کیا کہ موجودہ اقتصادی اورمعاشی بحران نسل پرستی کو بڑھاوا دے سکتا ہے۔ دونوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ ان مشکل حالات میں سمجھ بوجھ سے کام لے۔

نوبل انعام یافتہ نیلسن منڈیلا نے ایلچی کے ذریعے کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہا کہ نسل پرستی کے خلاف لڑائی میں سیاسی اختلافات رکاوٹ نہیں بننے چاہییں۔

Mahmoud Ahmadinejad Antirassismus Konferenz in Genf
احمدی نژاد کانفرنس میں شرکت کے لئے آتے ہوئےتصویر: AP

اگرچہ کانفرنس کے مسودہء قرارداد میں کئی متنازعہ سیکشنز نکالے بھی گئے تھے تاہم امریکہ، جرمنی اوربائیکاٹ کرنے والے دیگرممالک نئے ڈرافٹ سے بھی مطمئن نظرنہیں آئے۔ ان ملکوں کی رائے میں ابھی بھی ڈرافٹ کئی لحاظ سے ’مبہم‘ ہے۔

کانفرنس کے میزبان ملک سوئٹزرلینڈ کے صدرہانس روڈولف میرٹس اورایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے مابین اتوارکی ملاقات نے بھی کئی حلقوں کو ناراض کردیا ہے۔

سوئس خبر رساں ادارے ATS کے مطابق سوئٹزرلینڈ کے صدر نے اپنے ایرانی ہم منصب کے ساتھ ملاقات پرجاری تنقید کو غیرمناسب طرزعمل قراردیا ہے۔

’’میں تنقید کرنے والوں کو سمجھ سکتا ہوں مگران کا طرزعمل نہ صرف غیرمناسب بلکہ غیرمنصفانہ بھی ہے۔‘‘

سوئٹزرلینڈ کے صدرکے ساتھ احمدی نژاد کی یہ ملاقات ایرانی صدرکی کسی بھی یورپی رہنما کے ساتھ پہلی رسمی ملاقات تھی۔